ایچ بلاک(ماڈل ٹائون لاہور) میں میرے گھر سے چند گز کے فاصلے پر جناب شہباز شریف کا وہ عظیم الشان محل واقع ہے، جو انہوں نے چند سال پہلے سعودی عرب سے واپسی پر بنوایا تھا۔ویسے تو ایچ بلاک میں میاں فیملی کی آٹھ دس کوٹھیاں پہلے سے بھی ہیں ،لیکن میاں صاحب نہایت خوش ذوق انسان ہیں اور ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روز یوں ہوا کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران ان کی نظر کسی سعودی شہزادے کے محل پر پڑ گئی اور کافی دیر پڑی رہی۔جدید فن تعمیر کا یہ شاہکار دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے۔انہیں یوں لگا کہ اس محل کا چیف معمار یقینا استاد احمد لاہوری کی نسل سے ہو گا جس نے آگرہ کے تاج محل کا نقشہ بنایا تھا، جس کے مطابق ایرانی انجینئر شیرازی نے دنیا کا حیران کن عجوبہ تعمیر کر دیا۔یہ سوچ کر ان کا سر فخر سے بلند ہو گیا کہ تاج محل کی تعمیر میں لاہور کا حصہ بھی ہے۔خیر تو صاحب بات ہو رہی تھی، میاں شہبازشریف کے محل کی۔میں جب اس محل کو دور سے دیکھتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔قریب سے اس لئے نہیں دیکھ سکتا کہ اس لاجواب محل کو جانے والی سڑک کا گیٹ کورونا کی وجہ سے بند ہے۔ انشاء اللہ جب کورونا ختم ہو جائے گا تو ہمیں محل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے گا۔میاں صاحب کے محل کا اسم گرامی میرے خیال میں راج محل(بروزن تاج محل)ہونا چاہیے، اس لئے کہ اسے دیکھ کر ہندوستان کے راجے مہاراجے یاد آ جاتے ہیں۔کیا مزے کی بات ہے راجوں مہاراجوں کے بنائے ہوئے ٹائون میں ایک راج محل !ویسے تو میاں صاحب کا جاہ و جلال اور زرومال ماشاء اللہ ان تمام راجوں کی مجموعی دولت سے بھی کئی کروڑ ڈالر زیادہ ہے لیکن ایک نمایاں فرق ہے۔ میاں صاحب کو ان لوگوں پر ایک زبردست فوقیت حاصل ہے، وہ یہ کہ یہ راجے مطلق العنان حکمران تھے ،یعنی کہ ڈکٹیٹر تھے۔ان کی ریاستوں میں رعایا کو کسی قسم کے بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک انسانوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بھی کم تھی۔ یہ خود کو آقا اور عوام کو غلام بلکہ ادنیٰ غلام سمجھتے تھے۔ریاستوں کا نظام ایسا تھا کہ جس شخص سے راجہ صاحب ناراض ہوتے تھے ،اسے جیل میں ڈال دیا جاتا تھا اور پھر نہ وکیل‘نہ دلیل‘ نہ اپیل ۔اب آپ ذرا میاں صاحب پر غور فرمائیں۔ وہ جمہوریت کے عاشق ہیں اور سرتاپا(یعنی ہیٹ سے فوجی بوٹوں تک جمہوریت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ یاد کریں وہ وقت جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔جہاں کہیں بارش سے سیلاب آتا تھا۔ میاں صاحب چھلانگیں مارتے ہوئے ،وہاں پہنچ جاتے تھے۔خاص طور پر لکشمی چوک میں بننے والی جھیل کی طرف تو یوں بھاگتے تھے گویا سیلاب کا استقبال کرنے جا رہے ہیں۔سیلاب نے تو اپنے وقت پر ہی ٹلنا ہوتا تھا لیکن اپنے عظیم قائد کو پانی میں گھٹنوں گھٹنوں کھڑا دیکھ کر عوام سیلاب کی تباہ کاریاں بھول جاتے تھے اور فرط عقیدت سے میاں صاحب کی شان میں نعرہ بازی شروع کر دیتے تھے،جو وفادار سرکاری ٹیم کے اہل کار ساتھ جاتے تھے وہ بھی نعرہ بازی میں زبردست حصہ ڈالتے تھے۔ میاں صاحب صرف عوام ہی میں نہیں بلکہ سرکاری ملازمین میں بھی بے حد پاپولر تھے اور ابھی تک ہیں۔ان ملازمین کو میاں صاحب نے غالب کا یہ مصرعہ رٹایا ہوا ہے ع وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے ہاں تو بات ہو رہی تھی، میاں صاحب کی جمہوریت پسندی اور جمہوری مزاج کی۔ وہ خود کو ڈکٹیٹروں کی طرح قانون سے بے نیاز نہیں سمجھتے۔وہ تو قانون کے اتنے پابند ہیں کہ اس کی برتری کی خاطر جیل جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔یہی عظیم لیڈروں کا خاصہ ہوتا ہے۔خود ہی انصاف سے کہیے‘ عام لوگ آزادی کا لطف اٹھا رہے ہیں اور ان کا محبوب رہنما جیل کی چکی پیس رہا ہے۔یہ بات میں نے محاورۃً کہی ہے ورنہ کسی کی مجال ہے کہ میاں صاحب کو چکی پسینے کا کہے۔ یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ جس انسان نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی اسے جیل میں ڈالا ہوا ہے۔اس دور میں تو ایک پیسے کی کرپشن ویسے بھی ممکن نہیں۔ یہ تو پونڈوں اور ڈالروں کا دور ہے۔دراصل انہیں یہ کہنا چاہیے کہ میں نے کبھی ایک ڈالر کی کرپشن نہیں کی۔ ڈالر تو ڈالر ایک پونڈ کی کرپشن نہیں کی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا میاں صاحب کا معیار اتنا گرا ہوا ہے کہ وہ ایک پیسے ‘ایک ڈالر یا ایک پونڈ کی کرپشن کریں گے۔یہ چھوٹے لوگوں کی بات ہے۔بڑے لوگوں کا وژن بھی بڑا ہوتا ہے۔میاں صاحب کو زرومال سے نہیں‘ عوام سے محبت ہے۔انہوں نے کبھی عوام کو بے اختیار رعایا نہیں سمجھا۔ وہ عوام کے ہر فرد کو اپنا آقا سمجھتے ہیں اور خود کو خادم بلکہ خادم اعلیٰ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خود کو اعلیٰ سمجھتے ہیں جیسے وزیر اعلیٰ ہوتا ہے۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے خادم اور بھی ہیں مثلاً ان کے بڑے بھائی‘لیکن جہاں تک خدمت کا تعلق ہے وہ ان سب سے زیادہ خدمت کرتے ہیں۔ آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ع ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد چنانچہ میاں صاحب نے عوام کی اتنی شدید خدمت کی کہ عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا کر مخدوم(یعنی وزیر اعلیٰ)بنا دیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو خادم اعلیٰ ہوتا ہے وہی وزیر اعلیٰ بنتا ہے اور حاکم اعلیٰ(وزیر اعظم) بننا بھی اسی کا حق ہوتا ہے۔ انشاء اللہ آپ ایک دن دیکھیں گے کہ وہ حاکم اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں گے لیکن وہ اس کرسی پر زیادہ دیر نہیں بیٹھا کریں گے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر ایک سیماب صفت انسان ہیں۔ سیماب سمجھتے ہیں نا آپ؟مرکری (Mercury) یعنی پارہ۔ہاں مجھے یاد آیا ماضی میں ایک فلم ایکٹریس ہوتی تھیں بیگم پارہ۔وہ بھی پارہ صفت تھیں اور ہندوستان فلم انڈسٹری کی پہلی بولڈ اداکارہ تھیں۔خیر یہ تو ضمناً بیگم پارہ کا ذکر آ گیا۔میں تو عرض کر رہا تھا کہ میاں صاحب ایک پارہ صفت انسان ہیں۔پارے کو آپ چاہے کسی پیالی میں ڈال کر فرج بلکہ فریزر میں بھی رکھ دیں، تو وہ کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ سے باز نہیں آئے گا۔میاں صاحب میں ایک اور صفت بھی ہے جو پارے میں نہیں۔ وہ ہے سنسناہٹ (وہ آواز جو مٹی کے کورے برتن میں پانی ڈالنے سے پیدا ہوتی ہے) میاں صاحب کا دل مٹی کے کورے برتن کی طرح ہے۔ مٹی کا اس لئے کہ وہ خاکسار انسان ہیں۔ جب اس برتن میں پانی(یعنی قومی خدمت کا جذبہ) ڈلتا ہے تو سنسناہٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ صفت کسی اور قومی رہنما میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی نیچے نہیں بیٹھتے۔آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جو شخص نچلا نہیں بیٹھ سکتا وہ اُچلا یعنی اونچی کرسی پر کیسے بیٹھے گا۔ ایک جگہ بیٹھنا ان کی فطرت کے خلاف ہے۔ جب وہ پنجاب کے خادم اعلیٰ تھے تو ان کے ایک نہیں چھ دفاتر تھے۔ اس لئے ایک آدھ دفتر بے کار تھا۔ ان چھ دفتروں میں ایک ظاہر اور پانچ خفیہ تھے۔خفیہ دفتروں میں وہ پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرتے تھے۔