قرآن کا اعجاز اور عربوں پر اس کے مضامین کا کُھلنا بہت سی معلومات کے لئے تحقیق کا باعث بنا۔اسلامی تعلیمات نے عربوں کے عقلی درجے کو کافی بلند کر دیا۔ بقول علامہ احمد امین مصری حضرت آدمؑ ’ نوحؑ ‘ ابراہیمؑ ‘یوسفؑ‘موسیٰؑ ‘ یونسؑ ‘ دائودؑ اور سلیمانؑ کے واقعات ان کے سامنے ایسے دلچسپ انداز میں پیش کئے گئے کہ عربوں کے دلوں میں مزید معلومات حاصل کرنے کا ایک ہیجان پیدا کر دیا۔ انہوں نے دوسری اقوام مثلاً یہود و نصاریٰ کے پاس سے وہ معلومات حاصل کیں جو ان کے ہاں موجود تھیں۔ ان چیزوں میں تہذیب و ثقافت کا ایک مستقل عنصر تھا جس نے مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا اور ان کے عقلی مدارک میں وسعت پیدا کر دی۔ اسلام کی ایک اہم خصوصیت جس نے عربوں کی عقلی زندگی پر گہرا اثر چھوڑا وہ یہ تھی کہ اس نے خدا اور اس کی صفات علم ‘ قدرت‘ وحدانیت وغیرہ پر ایمان لانے کی طرف دعوت دینے میں ایسا طرز فکر اختیار کیا جو انسانوں کی عقل کو بیدار کر سکے۔ ترجمہ:کیا ان لوگوں نے آسمانوں اور زمین کے ملکوت اور ان چیزوں پر غور نہیں کیا جو خدا نے پیدا کیں۔ علامہ احمد امین مصری کا رقم ایک اور آیت کریمہ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:انسان کو ذرا اپنے کھانے کی چیزوں کی طرف ہی دیکھنا چاہیے۔ ہم ہی تو ہیں جو پانی کو یوں موسلا دھار برساتے ہیں‘ پھر ہم ہی تو ہیں جو یوں زمین کو پھاڑ پھاڑ دیتے ہیں۔ پھر اس میں اناج‘ انگور‘ ترکاریاں‘ زیتون‘ کھجوریں اور گھنے گھنے باغات‘ میوے اور چارہ کے لئے گھاس اگاتے ہیںجو تمہارے کام آتا ہے اور تمہارے جانوروں کے لئے بھی۔‘‘ احوال کائنات پر غورو فکر خدا اور اس کی صفات پر استدلال کی طرف لے جاتا ہے۔ علامہ احمد امین مصری کا ہی کہناہے کہ رسول کریمؐ کے عہد سے لے کر اموی عہد کے آخر تک جب ہم علمی حرکات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ ہمیں تین جہتوں میں بٹی ہوئی ملتی ہیں۔ دینی حرکت میں دینی مسائل مثلاً تفسیر قرآن‘ حدیث‘ تشریح وغیرہ کی بحث۔ تاریخی حرکت میں تاریخ ‘ قصص ‘ سیروغیرہ اور فلسفیانہ حرکت میں فلسفہ‘ منطق‘ کیمیا اور طب وغیرہ کے علوم شامل ہیں۔ اصحاب رسولؐ اپنے علمی درجات میں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ بعض صحابہ کرام ؓدوسروں سے زیادہ شجاع اور بہادر تھے۔ بعض دوسروں سے زیادہ سخی اور کریم تھے۔ بعض صحابہؓ دوسرے صحابہؓ کی نسبت زیادہ علمی بصیرت رکھتے تھے۔ چھ سات صحابہ کرامؓ علم کے حوالے پہلے درجے میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت عمرؓ ‘ حضرت علیؓ ‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ‘ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ ‘ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ ‘ حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت عائشہؓ۔ باقی سب کے سب قریشی۔ مسروق کہتے ہیں: میں نے ان چھ صحابیوں کو اچھی طرح سونگھا تو میں نے ان سب کا علم حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر ختم پایا۔ حضرت تمیم داری کلمہ پڑھنے سے قبل نصرانی تھے۔9ہجری میں مسلمان ہوئے۔ ان کی زندگی راہبانہ تھی۔ کہا جاتاہے کہ حضرت عمرؓ نے انہیں وعظ نصیحت کی اجازت دی۔ قصہ گوئی ایک نصرانی رجحان تھا جو حضرت تمیم ؓکی وجہ سے مسلمانوں میں داخل ہوا۔ انہوں نے رسول کریمؐ کے سامنے جساسہ اور دجال کا قصہ بیان کیا۔ قصہ گوئی کی شکل یہ ہوا کرتی کہ ایک قصہ گو مسجد میں بیٹھ جاتا۔ اس کے اردگرد لوگ جمع ہو جاتے۔ قصہ گو آیات الٰہی سناتا پھر دوسری قوموں کے قصے‘ واقعات‘ حکایات اور کہانیاں وغیرہ سناتا۔ بعد میں قصہ گوئی کا یہ طریقہ بہت تیزی سے پھیلا۔ قصہ گو حضرات نے عجیب و غریب واقعات گھڑ لئے۔ امیر معاویہؓ نے اپنے زیر حکومت علاقوں میں قصہ گو حضرات سے بعض سیاسی خدمات لیں۔حضرت علیؓ کا زمانہ آیا تو آپ نے ان لوگوں کو مساجد سے جھڑک جھڑک کر نکال دیا۔ یہ قصہ گو ہی تھے جنہوں نے یہودیت و نصرانیت کی اساطیر کو مسلمانوں میں داخل کر دیے۔ اس چیز نے تاریخ کے فن کو خراب کیا کہ غلط اور وضعی قسم کے حوادث و واقعات اور فرضی کہانیاں اس میں گھستی چلی گئیں۔ حسن بن صباح کی تنظیم اور دہشت گردانہ سرگرمیاں ایک تاریخ ہیں لیکن عبدالحلیم شرر نے جب اسے ’’فردوس بریں‘‘ کے عنوان سے ناول میں سمویا تو متبادل تاریخی حقائق سے ناواقف افراد کے لئے یہ ناول ایک تاریخی دستاویز کا درجہ اختیار کر گیا۔اور بھی بہت لوگوں نے اس رنگ میں لکھا ۔ہم نے مدتوں پہلے ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیںاور پھر ان کے فقیر ہو گئے۔ کئی سال گزرے۔ ایک نیک بی بی نے میری کتاب’’نبی کریمؐ کے عزیزو اقارب‘‘ کا مطالعہ کیا۔ کتاب پر ٹیلی فون نمبر پڑھ کر مجھے فون کیا۔ کہنے لگیں !بھائی آپ نے بہت اعلیٰ کام کیا۔ ایک اور کام کر دیں۔ واقعہ کربلا ایک سچائی ہے مگر اس کے ساتھ بہت سی باتیں قصہ گو اور شاعر حضرات نے جوڑ دی ہیں۔ حقیقت اور افسانے کو الگ الگ کرنے پر آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔ آپ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ میں نے ان سے وعدہ کر لیا۔ کچھ روز ذاتی سطح پر مواد جمع کرتا رہا۔ پھر اپنے ایک انتہائی پڑھے لکھے اور معتدل مزاج فاضل دوست سے مشورہ کیا۔ انہوں نے میرے ارادوں کو خوفناک قرار دیتے ہوئے ماضی کے کئی حوالے دیدیے۔ مجھے لگا کہ اس موضوع پر مجھے کام نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی یہ بات درست لگی کہ ہم نے تصورات کو بت کی شکل دیدی ہے۔ دن رات ہم ان کو پوجتے ہیں۔ کوئی ہمارے تصور کے برعکس چاہے کتنی ہی سچائی لا کر رکھ دے ہم اپنے تصور کو ترک نہیں کریں گے۔ہم مسلمان ہیں اس لئے کتاب اللہ‘ سنت رسولؐ اور ان دونوں کی پیروی میں صحابہ کرامؓ کے عمل کو اپنے لئے مثال جانتے ہیں۔ شیر خدا حضرت علیؓ نے تاریخ اور فرضی قصوں کو یکجا کر کے اسے اسلامی حوالہ بنانے والوں کو مسجدوں سے نکال دیا تھا۔ اگر ہمیں افسانے اور قصے پڑھنا ہیں تو پھر تاریخ کے اصل واقعات سے اپنی نئی نسل کو پہلے واقف کرایا جائے۔