’’ول ڈیوراں (Will Durant) نامور لکھاری اور فلسفی گزرے ہیں۔ انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا :’’ ایک بار مجھے کچھ لیکچرز دینے کے سلسلے میں دوسرے ملک جانا پڑا۔ میں مہینے بعد گھر واپس لوٹا۔ شام کو بیوی کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ تم آج کل میری لائبریری سے کیا پڑھ رہی ہو۔ اس نے جواب دیا دنیا کا بہترین ناول۔ میں نے جواباً کہا کہ تم غلط کہہ رہی ہو کیونکہ دنیا کے بہترین ناول فیودور دستوئیفسکی(دوستو فسکی) کے لکھے ’’برادرز کراما زوف ‘‘کو تو میں خود پڑھ رہا ہوں اور اسے ساتھ لے کر گیا تھا۔ پھر جب میں نے بیوی سے وہ ناول لے کر دیکھا تو وہ دستوئیفسکی ہی کا ایک اورناول ’’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘ (جرم اور سزا) تھا۔ جب میں نے وہ پڑھا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا کہ میں اور میری بیوی دونوں درست تھے کیونکہ بلاشبہ یہ دونوں ناول دنیا کی بہترین تخلیقات ہیں۔‘‘ دوستو فسکی کے ناول برادرز کرامازوف کے بارے میں یہ قصہ مجھے معروف دانشور ، مترجم اور ادیب قاضی جاوید(مرحوم ) نے دس بارہ سال قبل سنایا۔قاضی صاحب چند دن پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے، وہ دستوئیفسکی کے بڑے مداح تھے۔ برادرز کرامازوف کی بڑی ستائش کرتے رہے ۔ اس ناول کو دنیا کے بیشتر نقادوں نے دنیا کے عظیم ترین ناولوں میں شمار کیا ہے، بہت سے بڑے ادیب اور نقاد اسے تاریخ انسانی کا عظیم ترین ناول قرار دیتے ہیں۔ بعض کے خیال میں برادرز کرامازوف کے ساتھ ٹالسٹائی کا جنگ اور امن (وار اینڈ پیس )بھی عظیم ناول ہے جبکہ ول ڈیوراں کی طرح کچھ لوگ وار اینڈ پیس ، برادرز کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ کو تاریخ انسانی کے تین عظیم ترین ناول کہتے ہیں۔ بہرحال دنیا کے کسی بھی خطے میں عالمی ادب کو جاننے والا ، سمجھنے والا کوئی شخص اگر فہرست بنائے گا تو برادرز کراما زوف کو ٹاپ کے دو یا تین ناولوں میں شامل کرے گا۔ اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔ بعض کتابیں اتنی دلچسپ، منفرد اور اچھوتی ہوتی ہیں کہ آپ انہیں زندگی بھر نہیں بھلا سکتے۔ یہ ممکن نہیں کہ انہیں پڑھنے کے بعد آپ کو یہ سوچنا پڑے کہ معلوم نہیں یہ کتاب پڑھی تھی یا نہیں ؟ میرے ساتھ ایسے چند ایک تجربات ہوئے ہیں۔ ہمارے پسندیدہ ادیب تارڑ صاحب نے ایک جگہ رسول حمزہ توف کی کتاب میرا داغستان کے بارے میں ایک واقعہ سنایا ہے کہ ان کے ایک افسانہ نگار دوست نے اس کے بارے میں پوچھا۔ تارڑ صاحب نے سوچتے ہوئے جواب دیا ، شائد پڑھی ہے، مکمل یاد نہیں۔ باذوق ادیب دوست نے جواباً کہا ،اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ’’میرا داغستان‘‘نہیں پڑھی کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایسی شاندار کتاب پڑھنے کے بعد کسی کو یاد نہ آئے، میرا داغستان آپ نے پڑھی ہوگی یا نہیں پڑھی ہوگی، درمیان کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی ، یہ ممکن نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد بھلا بیٹھیں۔ تارڑ صاحب کا اوپر بیان کردہ واقعہ پڑھتے ہوئے پہلا خیال یہی آیا کہ شائد اس میں کچھ ادبی مبالغہ شامل ہوا ہے۔ میرا داغستان پڑھنے کے بعد اس واقعے کی صداقت پر ایمان لے آیا۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ زندگی بھر رسول حمزہ توف کے سحر سے نہیں نکل سکتے۔ زندگی کے آخری لمحوں تک ’’میرا داغستان‘‘ کا ذائقہ، نشہ او ر فسوں اعصاب پر چھایا رہے گا۔ ایسا ہی تجربہ مجھے کرائم اینڈ پنشمنٹ پڑھتے ہوئے ہوا۔ اس سے کہیں زیادہ شدید بلکہ طوفانی قسم کا تجربہ وار اینڈ پیس پڑھتے ملا۔وار اینڈ پیس ایک سمندر ہے، عمیق سمندر جس کے بطن میں بے شمار طوفان پوشیدہ ہیں۔ دستوئیفسکی کا ناول برادرز کرامازوف پڑھنا بھی ایسا ہی بلاخیز تجربہ ہے۔ یہ ناول نہیں، گہرے سمندروں کا حسین سفر ہے۔ جسے آپ کبھی بھلا نہیں سکتے۔ لاطینی امریکہ کے دیوقامت ادیب گارشیا مارکیز کا مشہور ناول تو تنہائی کے سو سال ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ہمارے محترم ڈاکٹر نعیم کلاسرا مرحوم نے کر رکھا ہے اور خوب حق ادا کیا۔ وہ رئوف کلاسرا کے بڑے بھائی تھے۔۔کاش انہیں کچھ مہلت ملتی تو ایسے کئی شاہکار ناول وہ ترجمہ کر جاتے۔ مارکیز کا ایک اور بہت دلچسپ اور شاندار ناول’’ وبا کے دنوں میں محبت ‘‘کے نام سے اردو میں ترجمہ ہوا ہے۔لفظی ترجمہ تو’’ ہیضہ کے دنوں میں محبت‘‘ بنتا ہے، مگر وبا کا لفظ خوب استعمال کیا گیا۔ اس ناول کا مرکزی کردار اپنی جوانی کے زمانے کی محبت کے ساتھ تیس چالیس سال بعدبڑھاپے میں بحری جہاز کا سفر کرتا ہے، اس سفر کی داستان مارکیز نے بڑے دلآویز انداز میں بیان کی ہے۔ واپسی پر جب بحری جہاز گھاٹ تک پہنچنے والا تھا، اچانک اسے ہیرو نے واپس موڑنے کا حکم دیا اور پھر سے وہ سفر شروع ہوگیا۔ جنہوں نے یہ ناول پڑھا ہے وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسا بحری سفر کتنا دل خوش کن اور لطف انگیز رہا ہوگا۔ برادرز کراما زوف کو پڑھنا بھی ایسا ہی تجربہ ہے۔برادرز کرامازوف پڑھ لیں تو رہتی زندگی تک اسے فراموش نہیں کر پائیں گے۔ اس ناول کو ترجمہ کرنے والے شاہد حمید مرحوم ہیں۔ انہیں اردو کا محسن کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ تاریخ انسانی کے دونوں عظیم ترین ناولوں وار اینڈ پیس اور برادرز کرامازوف کو اردو میں منتقل کیا۔ یہ کام اس قدر کٹھن تھا کہ ایک صدی میں کسی کو کرنے کی ہمت نہ ہوئی، بہت سوں نے شروع کیا، مگر پھر چھوڑ دیا۔ شاہد حمید صاحب نے انگریزی کے کئی تراجم پڑھے، اس دور کی روسی تاریخ ، کلچر کا مطالعہ کیا، روسی زبان سیکھنے کی کوشش کی اور زبان کی کئی باریکیوں میں درک حاصل کیا۔ترجمہ کرنے کے ساتھ انہوں نے جو حاشیے لکھے، وہ لاجواب ہیں۔ ہر اہم چیز، ثقافتی روایت، پیچیدہ نکتے کی انہوں نے وضاحت کی۔’’برادرز کراما زوف ‘‘ دستو ئیفسکی کا آخری ناول ہے، عظیم روسی ادیب نے اپنی تمام تر مہارت، تجربہ اور مخصوص اسلوب کو اس میں سمو دیا۔ وار اینڈپیس کی نسبت برادرز کرامازوف قدرے پیچیدہ ناول ہے، اسے سمجھنے کے لئے توجہ درکار ہے۔ویسے بھی کسی ماسٹر پیس کو دیکھنا، سننا یا سمجھنا ہو تو ارتکاز لازم ہے۔ دستوئیفسکی کا اسلوب ٹالسٹائی کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے۔ کہاجاتا ہے کہ دستوئیفسکی ایک طرح سے اپنے عہد کا بڑا ماہر نفسیات تھا، انسانی کرداروں کے تضادات، اندرونی پیچیدگیوں کو اس نے کمال مہارت سے بیان کیا۔ کردارنگاری دستوئیفسکی پر ختم سمجھی جاتی ہے۔ شاہد حمید صاحب نے اسی لئے ناول کے ترجمہ کے ساتھ ڈیڑھ دو سو صفحات میں تین چار مختلف مضامین لکھے، جس میں روسی زبان کی نزاکتوں کا ذکر کیا اور کئی دلچسپ نکات سمجھائے جو ناول کی تفہیم میں مدگار ثابت ہوتے ہیں۔ ممتاز شاعر، مترجم اور ادیب جناب سلیم الرحمن صاحب نے اس ترجمہ کے لئے دستوئیفسکی کا سوانحی خاکہ بھی تحریر کیا ہے۔ افسوس کہ شاہد حمید صاحب کو اپنی بے پناہ ادبی خدمات کے باوجود کوئی حکومت ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ اس ناول کو مگر جس خوبصورت اور شایان شان طریقے سے جہلم بک کارنر کے گگن شاہد، امر شاہد نے شائع کیا ہے،یہ بذات خود ایک ٹریبیوٹ سے کم نہیں۔ دوبارہ اشاعت کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ دستوئیفسکی کا برادرز کرامازوف اور ٹالسٹائی کا جنگ اور امن پندرہ بیس سال پہلے شائع ہوئے تھے، تب سے وہ آئوٹ آف پرنٹ ہیں۔ شاہد حمید کسی رائلٹی کے بغیر ہی یہ ناول چھپوانے کے لئے تیار تھے، مگر کوئی پبلشر اتنی ضخیم کتاب چھاپنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔گلبرگ، لاہور میں کتابوں کی ایک مشہور دکان کے مالک نے اسے چھاپنے کی ہامی بھری۔ شاہد حمید صاحب نے ناول کے حقوق ان کے نام کر دئیے۔ بدقسمتی سے یہ ناول شائع نہ ہوا، حتیٰ کہ دو ڈھائی سال پہلے شاہد حمید صاحب یہ حسرت لئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد بھی دونوں ناول شائع نہ ہوسکے۔ آخر کچھ عرصہ قبل باذوق احباب نے جہلم بک کارنر کی توجہ ادھر مبذول کی اور پھر شاہد حمید صاحب کی اولاد سے اجازت لے کر برادرز کرامازوف کی اشاعت ممکن ہوپائی۔ یہ کتاب نہایت خوبصورت انداز میں چھاپی گئی ہے۔ ایسی کہ پڑھنے والے داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ناول 1420 صفحات پر مشتمل ہے، اس ضخامت کے باوجود ہمت کر کے اسے پڑھ لینا چاہیے۔ بے شمار ردی کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے کہ تاریخ انسانی کے دو تین عظیم ناول ہی پڑھ لئے جائیں۔ امید کرنی چاہیے کہ اب وار اینڈ پیس کے ترجمہ کی اشاعت بھی ممکن ہوپائے گی۔ برادرز کرامازوف کے بارے میں تفصیل فیس بک پیج bookcornershowroom سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ آخر میں علم وادب کے چند مشاہیر کی برادرز کرامازوف کے بارے میں آرا پڑھیئے۔ ’’اب تک پڑھے گئے ناولز میں سب سے عالی شان ناول ہے‘‘،سگمنڈ فرائیڈ۔’’اگر تم دستوئیفسکی کو ملو تو میرا پیار کہنا‘‘، لیو ٹالسٹائی۔ ’’ میں آج کل دستوئیفسکی کا ناول برادرز کرامازوف پڑھ رہا ہوں، میں نے آج تک جن عمدہ ترین کتابوں کو اٹھایا ہے ، ان میں سے یہ سب سے قابل تعریف ہے‘‘،آئن سٹائن۔’’دستوئیفسکی کو پڑھتے ہوئے میں نے بے پناہ لطف اٹھایا‘‘، ولیم فاکنر۔ ’’دستو ئیفسکی واحد ماہر نفسیات ہے ، جس سے میں کچھ سیکھتا ہوں‘‘، فریڈرک نطشے۔’’کراما زوف برادران نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے‘‘، جیمز جوائس۔’’دستوئیفسکی کے کمال کو سب جانتے ہیں، اس کے ہنر کا کوئی جواب ہوسکتا ہے تو وہ غالبا شیکسپئیر ہے‘‘، میکسم گورکی۔ ’’اگر میں برادرز کرامازوف نہ پڑھتا تو کبھی ادیب نہ بنتا‘‘، ماریو پوزو(مصنف گاڈ فادر)۔’’ہزار برسوںمیں کوئی بہترین کتاب لکھی گئی ہے تو وہ دستوئیفسکی کی برادرز کرامازوف ہے‘‘، اورحان پاموک ۔