وزیر اعظم عمران خان نے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیے خصوصی پیکیج فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ بیرون ملک آباد پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور وہ ملک کی مالی حالت بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت نے سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے نادرا کے شناختی کارڈ لازمی حاصل کرنے کی پابندی ختم کر دی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک مزدوری کے لیے جانے والوں سے بائیو میٹرک فیس میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے وزارت خزانہ‘ ایف بی آر‘ سٹیٹ بنک اور نادرا کو ہدائت کی ہے کہ و بیرون ملک سے رقوم وطن بھیجنے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کا قابل عمل منصوبہ پیش کریں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں 70لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں۔ یہ ایسے تارکین وطن ہیں جو اپنے وطن میں بے روزگاری‘ طاقتوروں کے جبر اور ریاست کے نامہرباں سلوک سے دلبرداشتہ ہو کر دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گئے۔ ان کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کو وطن میں رہ کر آزمانے کا موقع نہ دیا گیا۔ یہ لوگ برسہا برس میرٹ پر عملدرآمد کے نعروں پر یقین کر کے بیٹھے رہے مگر جب حکمران طبقات نے ان کے دامن سے ساری امیدیں لوٹ لیں تو یہ خالی ہاتھ عرب ممالک‘ امریکہ‘ کینیڈا اور یورپی ممالک میں چلے گئے۔ بہت سے پاکستانی افریقہ کے کم آسائش والے ممالک میں جا آباد ہوئے۔ پاکستان کے حالات سے مایوس یہ وہی لوگ ہیں جن سے وزیر اعظم عمران خان نے بہت سی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت محنت مزدوری کر کے صرف اتنا کما پاتی ہے کہ وطن میں اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کر سکے۔ ہر سال یہ تارکین وطن مجموعی طور پر 20ارب ڈالر کی خطیر رقم وطن ارسال کرتے ہیں۔ پاکستان اس زرمبادلہ کو اپنے غیر ملکی اخراجات پورے کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نیا مسئلہ یہ پیدا ہوا ہے کہ ملک کی برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر مجموعی طور پر 40ارب ڈالر سے کم ہیں جبکہ پاکستان صرف تیل کی درآمد میں بھاری رقم خرچ کر رہاہے۔ پھر تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک کی مجموعی درآمدات 35ارب ڈالر سالانہ کے قریب جا پہنچی ہیں۔ ان حالات میں فوری تدبیر کے طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ضروری ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو توقع ہے کہ اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی فی کس ایک ہزار ڈالر ملک کو بھیجیں تو پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اس قدر بڑھ سکتے ہیں کہ ڈالر کی قدر ایک سو روپے تک لائی جا سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں آباد پاکستانیوں نے ابھی تک حکومت کی اپیل پر خاطر خواہ تعاون کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ ان کی ناکافی آمدن اور وطن میں درپیش مسائل ہیں۔ ان تارکین وطن سے تقریباً ہر حکومت تعاون کی طلب گار رہی ہے۔ مگر ان کے مسائل کے حل کے لیے کسی نے کام نہیں کیا۔ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جو ان لوگوں کے وطن میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر دیگر اداروں کی طرح اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن نے بھی تارکین وطن کے معاملات طے کرنے کی بجائے اپنی توجہ ہائوسنگ سکیموں اور سرمایہ کاری پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ہزاروں تارکین وطن کو یہ شکائت ہے کہ ان کی املاک پر ان کے عزیز رشتہ یا قبضہ گروپ قابض ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے چونکہ نوکری یا کاروبار چھوڑ کر پاکستان میں آنا اور قانونی معاملات نمٹانا ممکن نہیں ہوتا اس لیے وہ بدطینت افراد کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں۔ سابق حکومت نے اپنے آخری ایام میں سمندر پار پاکستانیوں کی املاک کو واگزار کرانے کی کوشش کی تھی جو اپنے نتائج کے اعتبار سے ناکافی تصور کی جا رہی تھی۔ سمندر پار مقیم افراد کے خاندانوں کو تحفظ درکار ہے۔ ان کے بچوں کو معیاری تعلیم کے اداروں کی ضرورت ہے اور انہیں ایسا مالیاتی نظام درکار ہے جس پر وہ ہنڈی والوں سے بڑھ کر بھروسہ کرسکیں۔ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ تارکین وطن اپنی رقوم ہنڈی اور حوالہ کی بجائے بنکوں کے ذریعے وطن بھیجیں۔ اس سلسلے میں چند امور توجہ کے لائق ہیں۔ ملک میں بینکوں کی شاخیں تحصیل ہیڈ کواٹر سے نیچے نہیں ہوتیں۔ دیہات میں مقیم افراد کو باہر سے بھیجی گئی رقوم حاصل کرنے کے لیے صبح سویرے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ اکثر گھروں میں کسی مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے لیے بنکوں میں جانا اور رقم سمیت حفاظت سے واپس آنا مشکل کام ہے۔ بینک مخصوص اوقات کار کے تحت کام کرتے ہیں۔ ہنڈی کے کاروبار سے منسلک لوگ ناصرف خود گھروں میں رقم پہنچاتے ہیں بلکہ انہیں کسی پیچیدہ فارم اور دستاویزات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر بیرون ملک مقیم شخص کو تنخواہ ملنے میں تاخیر کا سامنا ہے تو وہ اپنی ساکھ کے لحاظ سے ہنڈی والوں کو مخصوص رقم ایڈوانس میں اپنے گھر والوں تک پہنچانے کی درخواست کر دیتا ہے۔ ان آسانیوں کی وجہ سے لوگ بینکوں کی بجائے ہنڈی پر اعتبار کرتے ہیں۔ حکومت کویہ ساری آسانیاں فراہم کرنے کا انتظام کرنا ہو گا جو نجی شعبہ فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہمارے لیے قیمتی زرمبادلہ بھیجنے والے یہ محنت کش پاکستانی جب اپنے وطن کے ایئر پورٹ پر پہنچتے ہیں تو ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے تاکہ وہ ایئر پورٹ عملے کو کچھ نذرانہ دینے پر مجبور ہوں۔ ایئر پورٹ سے نکلتے ہی کچھ نئے گروہ ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ عموماً ایئر پورٹ کے اردگرد پولیس پارٹیاں تیار ہوتی ہیں کہ تارکین وطن سے کچھ رقم حاصل کر سکیں۔ یہ سلسلہ یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوتا بلکہ مشکلات بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اب ایسی مشکلات کا سامنا کرنے والے سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اس ریاست کی مدد کرے گا جس نے اسے روزگار اور تحفظ دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں حقیقت حال کا اندازہ کرتے ہوئے ازسر نو اپنی حکمت عملی کو ترتیب دیں۔ جب تک حکومت ان تارکین وطن کے لیے کوئی کام نہیں کرتی ان سے غیر معمولی تعاون کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ بلا شبہ بیرون ملک آباد پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں اور وہ ایثار سے کام لے کر اپنے وطن کی مشکلات کو کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ حکومت نے جلد ان کے لیے قابل پیکیج تیار کر لیا تو چالیس ارب ڈالر سے زیادہ ترسیلات زر کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا۔