محمد سعید نے اپنی تالیف کردہ کتاب میں اڑائی گئی اس گرد کو صاف کر دیا ہے جو دو نسلوں سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی تھی اور ہم اسے اپنا عین فرض ِ منصبی سمجھتے ہوئے اس گرد کو اور پھیلا کر اگلی نسل تک منتقل کر رہے تھے۔یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔اس کے مندرجات دیکھ ہی کر پتہ پانی ہو جاتا ہے کہ کس دقیق نظری کے ساتھ مصنف نے قائد کے فرمودات کو جمع کیا ہے۔قائد کے کیا خواب اور تصوارت تھے اور ہمارے نام نہاد رہنماؤں نے اس ملک کا کیسے حلیہ بگاڑ دیا۔ان فرمودات کے مطابق قائد نے کہا پاکستان عالم وجود میں آ چکا ہے اور یہ امر میرے لیے باعث ِ اطمینان ہے کہ نیا ملک ایک قطرہ خون گرائے بغیر حاصل کر لیا ہے۔اقلیتوں کے مسئلے میں فارمولے اور کاغذی قراردادوں کا قائل نہیں جس کی الٹی سیدھی تاویل کی جائے۔ دس اگست 1947ء کو قائد نے اپنے ایک پیغام میں قبائلیوں کو یقین دلایا ہے کہ بلوچستان کے رسم و رواج،قوانین اور الاؤنسز اور معاہدہ جات جاری رہیں گے اور حکومت ِ پاکستان اس وقت تک ان میں تبدیلی نہیں کرے گی جب تک کہ قبائلیوں سے مشاورت نہ کر لی جائے۔ گیارہ اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ اس حکومت کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تا کہ عوام کے جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے۔مجھے علم ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں ہند کی تقسیم اور پنجاب اور بنگال کے بٹوارے کے ساتھ اتفاق نہیں۔تقسیم کے خلاف بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔میری رائے میں اس مسئلے کا کوئی اور حل بھی نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ تاریخ اس کے حق میں فیصلہ صادر کرے گی۔ہو سکتا ہے یہ رائے درست درست ہو اور ہو سکتا ہے درست نہ ہو۔لیکن اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا۔اگر ہم پاکستان کو خوش وخرم دیکھنا چاہتے ہیں تو تمام توجہ عوام الناس کی فلاح و بہبود پر مرکوز کر دینی چاہیے۔ہمیں اس جذبے کے تحت کام کرنا چاہیے کہ ہندو فرقہ اور مسلمان قومیت کے چند در چند زاویے معدوم ہو جائیں گے۔اب آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جائیں،اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ بارہ اگست 1947آئین ساز اسمبلی میں لیاقت علی خان نے مسٹر محمد علی جناح کے لیے قائد اعظم کا ٹائٹل بولنے لکھنے اور سرکاری کاغذات میں استعمال کرنے کی قرارداد پیش کی۔کانگریس کے ارکان نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ جناح تو اس ٹائٹل کو پسند نہیں کرتے بلکہ اصولی طور پر وہ کہتے ہیں کہ یہ طے کر لیا جائے کہ پاکستان میں کسی کو بھی کوئی ٹائٹل نہیں دیا جائے گا۔ڈیلی گزٹ نے تیرہ اگست کے اداریے میں لکھا کہ جناح کی کل کی تقریر دنیا کے سیاسی لٹریچر میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔یہ Orientation Newنئی بنیاد ہے۔ہمیں یقین تھا کہ مسٹر جناح جو فیروز شامہتہ کے شاگرد ہیں ایک دن اتحاد کے روایتی رول میں نظر آئیں گے۔ تیرہ اگست 1947میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں (بالتصریح)کہ ہم اس جذبے کو سراہتے ہیں جس کے تحت اس وقت سرکاری ملازمت اور مسلح افواج میں موجود حکام نے عبوری طور پر پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔عظیم شہنشاہ اکبر نے تمام اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور حسن ِ سلوک کا مظاہرہ کیا ۔یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔اس کی ابتدا آج سے تیرہ سو سال قبل ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے کر دی تھی۔آپ ﷺ نے زبان سے ہی نہیں اپنے عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ پندرہ اگست 1947 ء قائد نے پاکستان کے شہریوں کے نام نشری تقریر میں پاکستان کے قیام، اقلیتوں کے تحفظ، امن و امان کے قیام اور پڑوسیوں سے پرامن تعلقات پر زور دیا ہے۔ سولہ اگست 1947ء پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے ایک آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں نافذ قوانین اور انہیں ملنے والی Subsidiesچودہ اگست 1947 کے بعد بھی جاری رہیں گی۔ سترہ اگست 1947ء قائد نے اپنی نشری تقریر میں کہا ہے کہ نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم دنیا کو دکھا سکیں کہ ایک قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور ذات پات اور عقیدے کی تمیز کے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے کام کر سکتی ہے۔ آئیے ہم اپنے قول، عمل اور افکار کے ذریعے یہ بات اقلیتوں کے ذہن نشین کرا دیں کہ جب تک وہ پاکستان کے وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے انہیں کسی چیز سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ سترہ اگست 1947ء ان بنیادی تصورات کی صراحت کا ہی نتیجہ تھا کہ جی ایم سید کا بیان بائیس اگست 1947 کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع ہوا تھا، جس کے مطابق بظاہر مسلم لیگ کا یہ رویہ درست سمت کی جانب ایک قدم ہے اور میں ایک سوشلسٹ کے طور پر اس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور مسلم لیگ کی اس نئی سوچ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ٭٭٭٭٭