برصغیر کی سیاسی تاریخ، روحانی تاریخ کی پیروی میں آگے بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، شہاب الدین غوری کو ہندوستان کی فتح مندی کی بشارت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے دی تھی، جبکہ فیروز شاہ تغلق کو تخت پر متمکن کرنے والوں میں حضرت نصیر الدین چراغ دہلیؒ اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت (اُوچ شریف) نمایاں تھے، تاریخ ہند میں یہ بات محفوظ ہے کہ علاء الدین حسن بہمنی ، صاحبِ اقتدار ہونے سے قبل ، ایک دن خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں حاضر ہوا، اسی اثنا میں محمد بن تغلق ، جو ابھی بادشاہ نہ بنا تھا ، شہزادہ تھا ، شیخ کی بارگاہ کی حاضری کے بعد ، آپ ؒ کی خانقاہ سے ، باہر نکل رہا تھا، اس موقع پر حضرت خواجہ کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا: "سلطانے رفت و سلطانے آمد "یعنی : ایک بادشاہ جاتا ہے اور ایک آتا ہے۔ …اسی موقع پر آپ نے علاء الدین حسن پر خاص التفات و کرم فرمایا اور ایک روٹی ، جو آپ نے اپنے افطار کے لیے رکھی تھی، اس کو اس بشارت کے ساتھ عطا فرمائی کہ :"ایں چتر شاہی ست کہ پس از مدتے دراز و محنت درو کن روزے نصیب و خواہد شد" یعنی: یہ "شاہی چھتر" ہے جو طویل رنج اور محنت کے بعد حاصل ہوتا ہے ، ایک روز تمہیں ضرور نصیب ہو گا ۔ بہرحال۔۔۔ گذشتہ سے پیوستہ یہ ہے کہ "ہنوز دِلّی دور است "کا فرمان پورا ہوا ، سلطان غیاث الدین تغلق ، استقبالیہ چوبی محل کے نیچے دب کر، راہیٔ ملکِ عدم ہوا۔ اب اگلا اور اختتامی منظر بھی دیکھئے ، خواجہ سید محمد امام بیان کرتے تھے کہ جب سلطان غیاث الدین تغلق کے مرنے کی اطلاع حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کو دی گئی تو حضرتؒ چادر اوڑھے ہوئے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کے قریب قاضی سید محی الدین کاشانی ؒ اور خواجہ سید رفیع الدین ہارون اور مولانا وحید الدین پائیلی اور مولانا اخی سراج بھی حاضر تھے اور میں بھی پلنگ کے پائیں بیٹھا تھا ۔ خواجہ مبشر نے حاضر ہو کر عرض کی کہ ابھی مشہور ہوا ہے کہ سلطان غیاث الدین تغلق مکان کے نیچے دب کر مر گیا ۔حضرتؒ نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت انسانی ارادوں پر غالب رہتی ہے ۔ بادشاہ بہت اچھا آدمی تھا ۔ اس کے دل میں شریعت کا ادب تھا اور وہ رعایا کی آسائش کا ہمیشہ خیال رکھتا تھا ۔ خواجہ مبشر نے کہا : شیخ زادے فرجام نے اس کے ہاں رسوخ حاصل کیاتھا اور وہ بادشاہ کے سامنے مردانِ خدا کی غیبت کیا کرتا تھا ۔ حضرت ؒ نے فرمایا : تم بھی غیبت کر رہے ہو ۔ تم کیا جانو کہ شیخ زادہ غیبت کرتا تھا یا نہیں ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی برائی چاہنے والوں کی برائی نہ چاہے اور ان کے پیٹھ پیچھے ان کو برا نہ کہے ۔ اس کے بعد ارشادہوا : ہر کہ مارا رنجہ دارد را حتش بسیار باد ہر گلے کز باغِ عمرش بشگفد بے خار باد یعنی: ہر وہ شخص جس نے بھی مجھے رنج و الم میں مبتلا کیا، اسے بہت راحت و آرام حاصل ہو ، اسکی حیات کے باغ میں جو بھی پھول کھلے وہ بن کانٹے ہو ۔ "واقعہ افغان پور" کا تذکرہ معروف مؤرخ محمدقاسم فرشتہ نے اپنی کتاب "تاریخ فرشتہ " میںاور عجائب الاسفار میں شیخ ابن بطوطہ نے حضرت شیخ رکن الدین ؒ ملتانی کے حوالے سے کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے احمد ایازخواجہ جہاں نے عینی شاھد کے طور پر جوتفصیلات فراہم کی ہیں فی الجملہ کوئی اور تذکرہ نگار اس پر اتنے بسیط انداز میں گفتگو نہیں کر سکا۔ معاصر مؤرخ ضیاء الدین برنی جس نے اپنی معروف "تاریخ فیروز شاھی"میں اس واقعہ کی تفصیل اور سلطان کی موت کی وجوہات بیان کرنے سے عمداً گریز کیا ہے کہ یہی سرکاری و درباری مؤرخین کا عصری عارضہ ہے ۔ برنی نے سلطان کی موت کا مختصر الفاظ میں ذکر کرتے ہوئے "صاعقہ بلائے آسماں بر زمین نازل شد "کا جملہ لکھ کر آنے والے محققین اور مؤرخین کے لئے عمداً بحث و جرح کا دروازہ کھول دیا ہے ۔مؤرخ فرشتہ کے مطابق اس نے مصلحتاً اس واقعہ کو بالتفصیل بیان کرنے سے اعراض برتا ہے ،حتیٰ کہ اس نے حضرت شاہ رکن عالم ملتانی ؒاور محل کے معمار خواجہ جہاں احمد ایاز سمیت ان اہم شخصیات اور امراء کے نام بھی نہیں لکھے جو اس سانحہ کے موقعہ پر موجود تھے ۔برنی اگرچہ تاریخی حالات وواقعات کو بڑی شرح و بسط اور ذمہ داری کے ساتھ بیان کرتا اور معمولی سے معمولی جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کرتا لیکن یہاں پر اس کا یہ اختصار اور ایجاز اس کے معمول اور عادت سے ہٹ کر ہے تاہم یہ کوئی ناقابل فہم امر نہیں ہے ، بلکہ یہ بہت واضح سی بات ہے کہ برنی نے اپنی تاریخ سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور میں مکمل کی اور اسی سے منسوب کر کے اس کا نام "تاریخ فیروز شاہی "رکھا ۔ فیروز شاہ تغلق ،سلطان محمد تغلق کے ساتھ انتہائی محبت و عقیدت رکھتا تھا ، جس کااظہار اس کے دورِحکومت میں نظر آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ برنی نے محض مؤرخانہ تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ،اس واقعہ کے حوالے سے انتہائی محتاط اسلوبِ بیان اور طرزِ نگارش اختیار کیا ہے۔ ’’تاریخ فیروز شاہی‘‘ ، ’’سیر الاولیائ‘‘ اور ’’سیر العارفین‘‘ میں ایک ہی انداز سے یہ واقعہ تحریر کیا گیا ہے جو کہ حسب ذیل ہے : "جب سلطان محمد تغلق نے سنا کہ سلطان (غیاث الدین ) تغلق آج کل میں لکھنوتی سے تغلق آباد پہنچنے والا ہے ، اس نے حکم دیا کہ تغلق آباد سے تین کوس کے فاصلے پر افغان پور کے قریب ایک چھوٹا سا خوب صورت محل تعمیر کیا جائے ، جس میں اس کا باپ رات کو ٹھہرے اور صبح کو بادشاہی حشم و قدم کے ساتھ شہر میں داخل ہو ۔چنانچہ عصر کی نماز کے وقت سلطان (غیاث الدین ) تغلق شاہ نئے محل میں داخل ہوا اور اس محل میں ٹھہرا ۔ اس کے بیٹے سلطان محمدتغلق اور دیگراکابر واشراف نے اس کااستقبال کیا اور پابوسی کا شرف حاصل کیا ۔ شاہی دسترخوان بچھایا گیا سب نے کھانا کھایا ۔ جب کھانا کھا چکے تو سب ہاتھ دھونے کے لئے باہر آئے ۔ اچانک بلائے آسمانی کی بجلی زمین کے رہنے والوں پر گری اور محل کی چھت یکایک سلطان تغلق پر گر پڑی ۔ سلطان پانچ چھ آدمیوں کے ساتھ چھت کے نیچے دب گیا اور رحمتِ حق سے جا ملا ۔" فقرِ وقت نے "ہنوز دلّی دور است "کہا تھا لیکن قضائے ربّانی نے اس حقیقت کو "خس کم جہاں پاک " بنا دیا ۔ دولت آباد کی آباد کاری اور دہلی سے تمام امراء کا کوچ اس حقیقت کو بھی ثابت کر گیا کہ جس شہر کے علماء ،حدیثِ رسول ﷺ پر قولِ فقیہ کو ترجیح دیں وہ شہر کیونکر آباد رہ سکتا ہے ۔ نتیجتاً دہلی اجڑ گئی اور محبوبِ الہٰی کی بارگاہ کودوام میسر رہا ۔بقولِ اقبال ( بہ دَرگاہِ حضرت محبوبِ الہٰی، دھلی) فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری ‘ فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا نہاں ہے تیری محبت میں رنگِ محبوبی بڑی ہے شان ‘ بڑا احترام ہے تیرا