یہ علامتیں اچھی نہیں ہیں۔ریاست کی مشینری جب صحافیوں کے خلاف استعمال ہونے لگے یہ کسی بھی حکومت کے خلاف اچھا شگون نہیں سمجھا جائے گا۔اس وقت عجیب سراسیمگی کا عالم ہے۔ایک طرف تو ایسی سیاسی ملاقاتیں جاری ہیں چند روز پہلے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔مثال کے طور پر ن لیگ والے کم از کم چوہدری برادران سے اتنے ناراض تھے کہ کسی سیاسی مفاہمت کی کوئی گنجائش تک نہ تھی۔خاص طور پر نواز شریف تو چوہدری برادران کا نام تک سننے کو تیار نہ تھے چہ جائیکہ کہ ان کے بھائی ان کے گھر جانے کا سوچیں۔چوہدری شجاعت کے بارے میں تو وہ قدرے نرم تھے مگر پرویز الٰہی کا تو نام تک نہ سنتے تھے۔ ق لیگ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی۔انہوں نے آصف زرداری سے بھی مفاہمت کی اور ان کی پارٹی کی کابینہ میں پرویز الٰہی ڈپٹی وزیر اعظم رہے جبکہ چوہدری ظہور الٰہی کے حوالے سے جو کچھ ایک دوسرے کے بارے میں موقف تھا وہ پوشیدہ نہ تھا۔چوہدری صاحب اس قلم کے گاہک بنے جس سے بھٹو مرحوم کو سزا لکھی گئی اور ان کے قتل پر پیپلز پارٹی والوں کی خوشیاں بھی چوہدری صاحبان کو یاد تھیں مگر مشرف کا ساتھ دینے کی قیمت انہیں اب تک ادا کرنا پڑ رہی ہے ‘یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ پنجاب کی سیاست میں عمران خاں کا ساتھ دینے پر تیار ہوئے۔یہ بقا کی جنگ ہے۔اس وقت بھی ان کی اہمیت ہے اور وہ اس کی قیمت وصول کرنا چاہیں گے۔ کس نے سوچا تھا کہ ایم کیو ایم کا ایک اعلیٰ سطحی وفد لاہور میں آ کر شہباز شریف اور چوہدری صاحبان سے ملاقاتیں کرے گا اور کراچی میں وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ ایم کیو ایم کے صدر دفتر جائیں گے۔یہی نہیں بلکہ جہانگیر ترین کے ساتھیوں نے بھی اپنا اجلاس طلب کر لیا تاکہ اپنی خاموشی توڑی جائے۔کسی نے کہا یہ خاموشی توڑنے کے لئے یا اپنی قیمت لگانے کے لئے۔آخر میں خبر آئی کہ جب تک تحریک عدم اعتماد نہیںآتی اپنے پتے سینے سے لگائے رکھے جائیں تاہم یہ انکشاف بھی ہوا کہ زیادہ تر ارکان ن لیگ کے ساتھ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں اور چند ایک آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو یقین ہے کہ تحریک انصاف انہیں ٹکٹ نہیں دے گی اور مسلم لیگ ن کا ریلا انہیں بہا کر لے جائے گا۔ پنجاب میں (ق )بھی (ن) سے کچھ طلب کر رہی ہے اور تحریک انصاف کے ناراض لوگ بھی انہیں سے کچھ مانگ رہے ہیں۔درمیان میں زرداری اپنا راستہ نکال رہے ہیں۔ان کا کھیل بھی حکومت کے لئے خطرے کی نشانی ہے۔جہانگیر ترین گروپ کے ارکان نے تو ایک خبر کے مطابق اپنے اپنے حلقوں کی رپورٹ بھی دی‘ جس کے مطابق انہیں اگر تحریک انصاف ٹکٹ دے بھی دے تو اس ٹکٹ پر انتخاب نہیں جیتا جا سکتا۔ادھر خیبر پختونخواہ میں پرویز خٹک ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔وہاں باقی ماندہ بلدیاتی انتخابات کے التوا کے لئے عدالت سے رجوع کرنا بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ پارٹی کے اور محاذوں پر لڑائیاں بھی جاری ہیں۔چلیے ان کا تذکرہ نہیں کرتے‘یہی کہہ لیتے ہیں کہ ایک ہی پیج پر ہونے کا ورقہ ابھی تک پھاڑا نہیں جا چکا‘تاہم صاف نظر آ رہا ہے کہ اب پہلے جیسے معاملات نہیں رہے۔وہاں بھی ایک محاذ کھول دیا گیا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب حکومتیں اپنی کمزوری چھپانے کے لئے اپنے بازو دکھاتی ہیں۔طاقت کا یہ مظاہرہ کبھی اچھا نہیں ہوا۔چراغ جب جلتا ہے تو تب یک دم بھڑکتا ہے۔یا جب بجھنے لگتا ہے۔جب بھٹو صاحب آئے تھے تو انہوں نے آتے ہی ایک صحافی کو فکس اپ کر دینے کی دھمکی دی تھی اور دوسرے کی برطرفی کا اعلان کیا تھا۔فکس اپ تو پھر ان کی چڑ بن گئی۔ چمکتی گالوں پر زناٹے کا تھپڑ جڑ دیا۔اک اداکارہ نے طیارے میں فکس اپ کرایا۔ پتا نہیں یہ واقعہ سچ تھا کہ نہیں‘مگر آغا شورش نے اسے قلمبند کر دیا۔نکالے جانے والے صحافی پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری تھے اور یہ فکس اپ کی دھمکی سننے والے بشیر قریشی تھے۔چند ہی دنوں بعد حکم جاری کیا کہ اردو ڈائجسٹ‘ زندگی‘ پنجاب پنج ہمیشہ کے لئے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان کے ایڈیٹر اور پبلشر تاحیات صحافت کے لئے نااہل قرار پاتے ہیں۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ‘الطاف حسن قرشی‘مجیب شامی‘ حسین نقی اور مظفر قادر سب اس کی زد میں آئے اور میں کہا کرتا ہوں ازراہ تفنن کہ وہ لیڈر بن گئے اور میں ایڈیٹر۔جلد ہی انہیں ہوش آیا مگر پھر ان کا سارا غصہ اپنے ساتھیوں اور مخالف سیاست دانوں پر نکلنے لگا۔جے اے رحیم سے لے کر دلائی کیمپ تک کی ایک لمبی داستان ہے۔ اس نے بھی کہا تھا مری کرسی مضبوط ہے۔اب بھی سن رہے ہیں کہ مرے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ایسا سوچنے والے جب سختی کرتے ہیں تو یا تو اس کا شمار ان کے آغاز کی غلطیوں میں ہوتا ہے یا رخصتی کے ہڑ بونگ میں۔یہ مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتا۔تاہم میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس وقت اپوزیشن بالکل شانت ہے کہ انہیں کچھ نہیں کھونا اور شاید فی الفور بھی کچھ نہیں ملنے والا۔ایک بوجھ ہے جو وہ اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔وہ ناکام بھی ہوتے ہیں تو حکومت کا حصے میں کچھ نہیں آتا۔جو رسوائی ان کے نام مہنگائی‘بے روزگاری اور بے حکومتی کے تاثر نے لکھ دی ہے‘اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔اس طرح کے اقدام اس خیال کو تقویت دیں گے کہ چراغ بجھا ہی چاہتا۔آج بجھا کہ کل بجھا۔اس ماہ گئے یا اگلے ماہ۔اس سال گئے یا اگلے سال۔میڈیا کبھی ڈرانے دھمکانے سے قابو میں نہیں آتا۔وہ میڈیا جو آپ کے گن گاتا تھا‘آپ نے آتے ہی یہ تاثر دے کر کہ آپ اس پر ضرب لگانا چاہتے ہو‘کچھ اچھا نہیں کیا اور اب جب اردگرد کے حالات نے میڈیا کو فطری طور پر مدمقابل لاکھڑا کیا ہے‘اس کاٹھی ڈالنے کی ہر کوشش کے منفی اثرات نکلیں گے۔اب تک تو یہ ایسی چال چل رہا ہے‘ایسے اقدام سے وہ سرپٹ بھاگنے لگے گا۔ ایک چھوٹی سی بات اور کہ سائبر کرائم کے نام پر جو ادارے قائم ہوتے ہیں‘وہ سیاسی مخالفوں کو دبانے کے لئے معتبر نہیں ہو سکتے۔سوشل میڈیا کی جنگ ایک بہت مشکل جنگ ہے جسے عملی جنگ کا تجربہ رکھنے والے بھی نہیں سمجھ پاتے اور زچ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اس حوالے سے اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔یہ ہائپرڈ جنگ تھکا کر رکھ دیتی ہے۔آپ ابھی سے گھبرا گئے۔ دیکھئے گھبرانا نہیں ہے اور نہ یہ سمجھنا کہ دوسرے گھبرائے ہوئے ہیں۔وقار سے حکومت کرنا ہی اہم نہیں‘وقار سے حکومت چھوڑنا بھی ایک ایسی بات ہے جیسی تاریخ دیکھتی ہے۔ یاد رکھیے‘اب آپ تاریخ کا حصہ ہیں اور تاریخ آپ کو دیکھ رہی ہے۔