تاریخ کی کوئی اچھی کتاب دو ہزار روپے میں مل سکتی ہے۔ پہلی حیرت یہی ہو گی کہ دو ہزار میں ایسی کتاب مل گئی جس کا ایک ایک لفظ لاکھوں روپے کا ہے۔ تاریخ آپ کو بتائے گی کہ عالیشان محلوں میں رہنے والے مسلمانوں کے ایک خلیفہ بیت المقدس میں بطور فاتح ایسے داخل ہوئے کہ خود اونٹ کی رسی پکڑ کر پیدل چل رہے تھے اور ساتھی اپنی باری کے موجب سوار تھا۔ بظاہر معمولی سا واقعہ اس وقت ایک عظیم الشان تاریخی روشنائی بن جاتا ہے جب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں روسی فوج جب برلن شہر میں داخل ہوئی تو کم از کم ایک لاکھ عورتوں کی آبرو ریزی کی۔ اوسطاً ایک عورت سے دس سے بارہ فوجیوں نے بیک وقت زیادتی کی۔ دس ہزار خواتین اس سفاکیت کے دوران ہلاک ہو گئیں ۔ ایک مشیر نے سٹالن کی توجہ اس معاملے کی طرف دلائی تو اس نے کہا’’لوگوں کو خود سوچنا چاہیے ہزاروں کلو میٹر کا سفر‘خون کی ندیاں پار کر کے‘ گھر سے مہینوں دور رہنے والے روسی فوجی اگر کچھ دیر تفریح کر لیتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے‘‘۔ پورے جرمنی میں 20لاکھ خواتین سے زیادتی کی گئی۔ یہ حقائق پڑھنے کے لئے روسی صحافی ilya Ehrnburgکی کتاب Vojna(جنگ) کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ 1920ء کے دوران اٹلی کی فوج کو لیبیا کے ہاتھوں مزاحمت اور شکست اٹھانا پڑی۔ ان قبائلی گوریلوں کا سربراہ مشہور زمانہ جنگجو عمر المختار تھا۔ عمر مختار کو آج بھی لیبیا میں ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اٹلی کی افواج نے کم از کم ایک لاکھ شہری قتل کئے۔ مگر قبائلیوں کے ہاتھوں شکست کے بعد مسولینی نے لیبیا میں آباد اٹالین باشندوں اور مقامی لوگوں کے درمیان مفاہمت کے لئے ایک زبردست پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ تریپولی ‘ بن غازی اور مسوراتا جیسے شہروں کی ایک تہائی آبادی اٹلی کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ مسولینی کوئی مذہبی آدمی نہیں تھا مگر وہ سیاست میں مذہب کی اہمیت سے واقف تھا۔ اس نے پہلے ہی عیسائی پوپ کے ساتھ معاہدہ کر کے ایک طویل تنازع کا خاتمہ کر دیا تھا۔ ایسا ہی منصوبہ اس نے مسلم آبادی کے سامنے رکھا۔ اس نے اسلامی مدرسے تعمیر کرنے شروع کر دیے۔ شاندار مساجدبنوائیں۔ اپنی تقریروں میں اس نے لیبیائی باشندوں کو اٹالین مسلم کہنا شروع کیا۔ اس پالیسی کا ایک مقصد برطانیہ اور فرانس کے زیرنگیں دوسرے عرب ممالک کے باشندوں کی حمایت حاصل کرنا بھی تھا۔1937ء میں اس نے سرکاری طور پر لیبیا کا دورہ کیا اور بربر قبائل کے سرداروں سے ملاقات کی۔ یہ وہی بربر ہیں جن کی نسبت سے سفاکیت کا مترادف لفظ ’’بربریت‘‘ استعمال میں آیا۔ یوسف کربی نے اسے تلوار پیش کی۔ جسے سوارڈ آف اسلام کہا گیا۔ مسولینی نے خود کو اسلام کا محافظ قرار دیا۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ یورپ کے مسیحی جب گندے پانی سے پیدا ہیضہ کے باعث مکھیوں کی طرح مر رہے تھے اور صفائی سے متعلق بے احتیاطی انہیں موت کی طرف دھکیل رہی تھی تو وہاں کے یہودی مکمل طور پر ان امراض سے محفوظ تھے۔ یہودی خودنہیں جانتے تھے کہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا‘ پاکیزہ خوراک اور جسم کی صفائی رکھنا انہیں بچا رہا ہے۔ یہودی جراثیمی تھیوری سے آگاہ نہ تھے ۔ اس صورت حال میں مسیحیوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ یہودیوں نے انہیں زہر دیا ہے یا ان پر کوئی ایسا جادو کر دیا ہے جس سے وہ مر رہے ہیں اور یہودی محفوظ و مامون ہیں۔ مسیحیوں کا طریقہ تھا کہ وہ جانور ذبح کرتے وقت اس کا ہر حصہ کھانے میں استعمال کرتے۔ خون کو وہ نالی میں بہانے کی بجائے اس سے بلڈ سائوس بناتے جو آج بھی ان کی مرغوب ڈش ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہودی خون کو بہا دیتے ہیں۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہڈیاں اور خون کتوں کو ڈال دیے جاتے ہیں۔ اس سے ان کو یقین ہو گیا کہ یہودی اس خون اور ہڈیوں سے عیسائیوں پر ضرور کوئی مہلک جادو کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے یہودیوں کو کاشت کاری‘ ہنر مندی اور سپاہ گری سے روکنے کے لئے قوانین بنائے اور انہیں مالی حساب کتاب تک محدود کر دیا۔ آج کی دنیا امریکی بالادستی کی عادی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی بڑا کارنامہ کسی دوسری قوم سے منسوب ہو تو دنیا یقین ہی نہیں کرتی جیسے کہ یہ حقیقت کہ دنیا کو سب سے پہلے چینیوں نے دریافت کیا۔ چینی اس وقت افریقہ پہنچے جب یورپی اقوام کو یہاں کی خبر نہ تھی یہ پندرھویں صدی کی ابتداء کی بات ہے۔ کیا یہ بات آپ کو حیرت زدہ نہیں کرتی کہ Combyses iiآف پرشیا نے مصریوں کو اپنی بلی فوج کی مدد سے شکست دی۔ قدیم مصر میں بلی ایک مقدس جانور تصورہوتی تھی۔ بلی کو زخمی کرنے والے کو موت کی سزا دی جاتی۔ پرشیاکے بادشاہ نے اس حقیقت کو جان کر ایک فوج ترتیب دی جس کے آگے ہزاروں بلیوں کی پلٹن چل رہی تھی۔ سپاہیوں کو ایسی ڈھالیں دی گئیں جن پر بلیوں کے نقش کنداں تھے۔ پرشیا کی فوج نے اس بندوبست کے ساتھ مصر پر حملہ کیا تو مصری فوج نے جوابی حملے سے انکار کر دیا ارو پسپائی شروع کر دی۔ پرشیا والوں نے تعاقب کر کے انہیں قتل کیا اور ان کے فرعون کو پکڑ لیا۔ تاریخ کے دامن میں اربوں‘ کھربوں ڈالر کے معلوماتی خزانے ہیں۔ یہ خزانے ہماری شعوری غربت دور کرنے کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ اہل پاکستان کو تو خیر علم و تحقیق کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے فیصلہ ساز دماغ عرصہ ہوا روشنی سے محروم ہیں۔ آسان ترین کام یہ ہے کہ میں مولانا کے دھرنے کی قسمت پر لکھوں۔ عمران خان کی پالیسیوں پر تبصرہ کروں۔ اپنی مرضی کے نتائج اپنے پڑھنے والوں کے سامنے خالص سونے کے سکے بنا کر پیش کر دوں۔ کتاب خریدنے اور پڑھنے کا عمل سنجیدگی چاہتا ہے‘ قوم کا مزاج تیزی سے غیر سنجیدہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا ستم ہے کہ لفظ بیچنے والے ہمیں ناکارہ پتھر اور ڈھیلے لعل و جواہر بنا کر تھما رہے ہیں۔ پاکستان کو ایک علمی تحریک کی ضرورت ہے جو میڈیا کو بتائے کہ تجزیہ کار کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ جو حکمران کو بتائے کہ مشیر کا دانشمند ہونا ضرور ی ہے۔ جو سیاستدان کو بتائے کہ سیاست کا ریاست کے تابع ہونا ضروری ہے۔ جو ہر ادارے کو اس کا کردار سمجھائے۔ کیا کوئی تاریخ کے اس کردار سے مدد لینے کو تیار ہے؟