خدا اس وقت تک کسی کی حالت نہیں بدلتا‘ جب تک وہ خود اپنے حالات نہ بدلے۔یہ خدا کا دستور ازلی ہے جو تا ابدر ہے گا۔ افراد سے اقوام تک پر قدرت کے اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے جسے نیوٹن کے فکری انداز میں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ آج دنیا کی سوا دو سو سالہ عظیم جمہوری روایات کی امین اور رواداری‘ برداشت‘ برابری اور آزادی اظہار کی علمبردار امریکی قوم کو اسی ردعمل کا سامنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ دنیا امریکہ کی عزت کرے گی اور اس سے ڈرے گی۔ وہ دونوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہ کر سکے۔ امریکی تاریخ کے پہلے صدر جنہیں دو مرتبہ مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا۔ تیس برس بعد پہلے صدر جو دوسری مدت کا صدارتی انتخاب ہارے اور ڈیڑھ سو سال بعد نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے انکار کرنے والے مجموعی طور پر چوتھے صدر بنے۔ ٹرمپ کے اکسانے پر ایک ہجوم نے کیپٹل ہل پر ہلہ بولا اور نفرت‘ تعصب‘ عدم برداشت اور گالی گلوچ پر مبنی ان کے رویے اور سیاست نے چار سال کے مختصر عرصے میں امریکہ کی صدیوں پرانی سیاسی‘ معاشرتی اور جمہوری تاریخ کا چہرہ مسخ کردیا۔ اس واقعہ سے امریکہ اپنے ہی ملک میں بے بس، لاچار اور کمزور نظر آیا اور اتحادیوں کی نظر میں اپنا وقار کھو بیٹھا۔ آج ایک بدلی ہوئی دنیا ہے۔ قوم پرستی اور عدم مساوات و برداشت اس دنیا کا وطیرہ ہے اور آج امریکہ صرف چین کا ساڑھے اٹھارہ کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔ آج دنیا کی سرداری کا دعویدار چین امریکی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر رہا ہے۔ روس کے ہیکرز امریکہ کے سائبر سکیورٹی ڈیفنس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ اس کی فیڈرل ایجنسیوں کو ناکامیوں کا سامنا ہے اور دہائیوں تک واحد سپر پاور رہنے والے اور پوری دنیا پر دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلط کرنے والے امریکہ کو آج اپنے ملک میں دہشت گردی کا سامنا ہے جس کا الزام وہ چین‘ روس یا ایران پر نہیں دے سکتا ۔ یہ ممالک اس صورتحال سے لطف اندوز ہورہے ہیں کیونکہ یہ اندرونی خطرات امریکہ کی اس سوچ اور نفرت سے پھوٹے ہیں جسے چار سال پہلے خود امریکی عوام نے منتخب کیا۔ آج خفیہ ادارے پریشان ہیں‘ پرتشدد واقعات و فسادات کا خطرہ بھی موجود ہے اور امریکی اسٹیبلشممنٹ نے نئے صدر کی تقریب حلف برداری کو انتہا پسند مسلح جتھوں سے بچانے کے لیے شہر کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے۔’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ کے مصداق آج پوری دنیا ایک طاقتور نظام کو اپنے اندر ہی ٹوٹتے پھوٹتے اورکمزور ہوتا دیکھ رہی ہے۔ بلاشبہ منتخب جوبائیڈن گزشتہ چالیس سال سے امریکی سیاست کے اہم کردار ہیں لیکن جمہوری، معاشرتی سیاسی روایات اور عالمی ساکھ کو پہنچنے والا نقصان بہت بڑا ہے۔ امریکی انتخابات کے چند ہفتے بعد ہی یورپی کونسل برائے خارجہ امور کے تحت ہونے والے ایک سروے کے مطابق زیادہ تر یورپی عوام کو خدشہ ہے کہ نئے امریکی صدر امریکہ کے عالمی کردار کو بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور آئندہ دس سال کے اندر چین دنیا کی واحد سپر پاور ہو گا۔ اس طرح ایک بداعتمادی امریکہ کی صلاحیت اور طاقت کے بارے میں پائی جاتی ہے جوکہ یورپی ممالک کو چین کی پالیسیوں سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی منڈی اور مستقبل کی سپر پاور کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے پر آمادہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں جیک سلیون جنہیں جوبائیڈن اپنا سکیورٹی ایڈوائزر بنانا چاہ رہے ہیں، کا واضح اعلان کہ وہ چین کے خلاف ٹرانس انٹلانٹک پالیسی کو نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے ستون کے طور پر دیکھ رہے ہیں، کتنا قابل عمل ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔ 6 جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والی سنگ باری نے ان نئے سوالات کو بھی جنم دیا ہے کہ آیا یورپی رہنما امریکی جمہوریت کی طاقت پر مزید اعتبار اور اس کے عالمی اثر و رسوخ کی قوت پر انحصار کر سکیں گے؟۔ لیکن اس تخریب میں تعمیر کا راز بھی مضمر ہے کہ سوچ‘ رویے اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ بڑے سے بڑے نظام کو ہلا سکتے ہیں کیونکہ افراد کے ہاتھوں میں ہی اقوام کی تقدیر ہوتی ہے۔ نفرت‘ عدم برداشت‘ عدم مساوات‘ منافرت اور تشدد صرف معا شرتی وسماجی مسائل نہیں بلکہ ایسا زہر قاتل ہیں جو آہستہ آہستہ معاشروں اورا قوام کو اپنا شکا ر بنا لیتا ہے ، ان مسائل کی شکارہرقوم و ملک کو اتنے ہی شدید اندرونی خطرات لاحق ہیں ، جن کا سامنا آج امریکہ کو ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ میں نئے صد رکے زما م کار سنبھالتے ہی پورا ملک تبدیل ہو جائے گا؟۔ اس کا جواب ابھی نفی میں ہے کیونکہ یہ انتہا پسند امریکی معاشرے کا ایک بڑا حصہ ہیں اور رہیں گے اور ان سے نمٹنا نئے صدرجوبائیڈن کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جیسے حکمران ،جو ٹرمپ کی طرح نفرت، تعصب، تشدداو ر شدت پسندی کی سیاست کے پروردہ ہیں ،کو اگر جمہوریت پسند امریکہ کی تائید حاصل رہتی ہے تو کیا نئی امریکی انتظامیہ فری ورلڈ کے لیڈر کے طور پر اپنے کردار کو تسلیم کروانے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ اس کا اپنا جمہوری نظام اسی نفرت کی سیاست کی نذر ہو کر خطرے سے دوچار ہو رہا ہے۔آج کی بدلتی دنیا میں غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے پاس اب امریکہ ہی آخری آپشن نہیں ہے چین اورروس بھی میدان میں موجود ہیں اور اس کے عالمی اقتدار کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔ آج امریکہ کو مودی کی تشدد و شدت پسندی پر مبنی سیاست پر بھی روک لگانا ہوگی کیونکہ نفرت کی یہ چنگاری بھڑک کر پوری دنیا کے امن کو خاکستر کرسکتی ہے۔ ایک زندہ اور باشعور قوم کی طرح ہمیں ارض پاکستان میں بھی معاشر تی و طبقاتی عدم مساوات اور عدم برداشت جیسے مسائل کا نا صرف ادراک کرنا ہوگا بلکہ ان کے خاتمہ کے لئے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لانا ہوں گی۔ کیونکہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا