فروری 1984ء کو معروف وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس ، جسٹس وائی پی چندرا چوڑ کی عدالت میں نے زور دار بحث کرکے دلیل دی تھی کہ جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کی، سزائے موت پر عملدرآمدنہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سزاکی توثیق نہیں کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی۔مگر اٹارنی جنرل کے پراساران نے دلائل کا جواب دیئے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے سبل کی اپیل مسترد کی اور بلیک وارنٹ کو موخر کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس گنگولی نے بی بی سی ہندی سروس کو بتایا کہ ان کیلئے اس فیصلہ کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا کہ قانون کے ایک طالب علم کی حیثیت سے وہ مانتے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ یہ تعین کرے کہ آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے ، تو بہت سے مندروں، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔’’ہم افسانوی حقائق کی بنیاد پر عدالتی فیصلے نہیں کرسکتے۔‘‘ بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بدھ و جین عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے جب ہندو مت کے احیاء کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بدھ بھکشووںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرادیا۔ اشوکا اور کنشکا کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بدھ مت اختیار کر چکی تھی، تو اب بھارت میں بد ھ آبادی محض 85لاکھ یعنی کل آبادی کا 0.70فیصد ہی کیوں ہے؟ پچھلے کچھ دنوں سے جس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں سے امن وامان برقراررکھنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بسر و چشم قبول کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں اور انہیں جس طرح صبر وتحمل سے کام لینے کے لئے کہا جارہا تھا‘ اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عدالت کوئی ایسا فیصلہ صادر کرنے والی ہے جس پر مسلمانوں کو صرف اور صرف صبر ہی کرنا ہوگا۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول سے لیکر راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لیڈران، جو مسلمانوں کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں۔ مسلم لیڈروں ،دانشوروں اور اردو صحافیوں کو کہیں چائے پر اور کہیں کھانے پر بلا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے چون وچرا قبول کرنا چاہئے۔ آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم کا کہنا ہے کہ فیصلہ لکھنے کے دوران ججز حضرات نے حقائق کو سامنے نہیں رکھا ہے اور خاص طور پر ٹائٹل سوٹ کو انہوں نے بنیاد نہیں بنایاہے۔جہاں تک کورٹ کی طرف سے مسلمانوں کو معاوضے کے طور پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے پانچ ایکڑ زمین دینے کا تعلق ہے، کئی مسلم گروپ بشمول حیدر آباد سے ممبر پارلیمان اسد الدین اویسی اسکو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ خیرات کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاتی۔مگر منطور عالم کا کہنا ہے کہ پانچ ایکڑ زمین ، بابری مسجد کے نواح میں اس 67 ایکڑزمین میں سے دی جائے جسے حکومت نے 1993 میں ایکوائر کیاتھا ۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی جن تین ایجنڈوں کے سہارے انتخابات میں ووٹ مانگتی تھی، ان میں سے دو اب پورے ہوچکے ہیں، ان میںجموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنا اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شامل تھا۔ اب ملک میں یونیفارم سول کورڈ کا نفاذ باقی رہ جاتا ہے۔ ان میں سے بابری مسجد نے خاص طور پر بی جے پی کو سیاسی طور پر خاصا فائدہ پہنچایا۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک تصنیف ’’ایودھیا۔رام جنم بھومی بابری مسجد وواد (تنازعہ) کا سچ‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین دہائی قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولہ پر اتفاق کیا تھا۔ ویشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولہ پر مہر لگانے کیلئے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اسلئے اسکی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ئوں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔‘‘ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائیگی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائیگا۔ مشہور محقق اے جی نورانی نے بھی اپنی کتاب Destruction of babri masjid a national dishonour میں لکھا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے ویشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کیلئے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔ مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔