سوشل میڈیا پر یہ الفاظ پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ ’’جتنے لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ میں شریک تھے اتنے لوگ تو میاں نواز شریف کے لیے بھی احتجاج کرتے نظر آئے‘‘ تاریخ تلخ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ تاریخ بڑی سے بڑی بات بھی اپنے سینے میں سماسکتی ہے۔ تاریخ کی برداشت بہت بڑی قوت ہوتی ہے۔ مگر تاریخ ایک غلط بات کو برداشت نہیں کرسکتی اور یہ بات غلط ہے کہ نواز شریف کو ملنے والی سزا پر نظرنہ آنے والے ردعمل کا موازنہ ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ سے کیا جائے۔ اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو کرنل رفیع کی کتاب ’’بھٹو کے آخری 323 دن‘‘ پڑھنی چاہئیے ۔ اس کتاب کے آخری باب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح رات کے پچھلے پہر میں انہیں سولی پر لٹکانے کے بعد ان کی نعش کو سی ون تھرٹی طیارے میں لاڑکانہ پہنچایا گیا تھا اور اس وقت بھٹو کے گاؤں گڑھی خدابخش میں موجود لوگوں نے فوجیوں کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے ضد کی تھی وہ ہر صورت میں بھٹو کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔ بھٹو بہت بڑے لیڈر تھے ۔ مگر ان کا گاؤں بہت چھوٹا تھا۔ اس گاؤں میں صبح صادق کے وقت جو چند لوگ موجود تھے انہوں نے ان کی نماز جنازہ ادا کی مگر میاں نواز شریف کو دن کی روشنی میں سزا سنائی گئی۔ ان کی حمایت میں اگر عوامی احتجاج اٹھتا تو اس کی نوعیت اور ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھٹو کی نماز جنازہ میں اس کے گاؤں کے بہت تھوڑے لوگ تھے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسرے دن پورے ملک میں لاکھوں لوگوں نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کی ۔ وہ مارشل لاء کا سخت وقت تھا۔ اس وقت میں بھی ہر شہر میں پڑھی جانے والی غائبانہ نماز جنازہ کے بعد وہ ہجوم پرامن طور پر منتشر ہونے کے بجائے سخت ترین احتجاج کرتا نظر آیا۔ ہم ان واقعات کی بات نہیں کرتے جب بھٹو کو ملنے والی پھانسی کی خبر سن کر پنجاب میں لوگوں نے اپنے آپ کو احتجاجی آگ لگائی تھی مگر سچ یہ ہے کہ جب بھٹو پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ ضمانت پر رہا ہوئے تب پورا ملک ان کی حمایت میں امڈ آیا تھا۔ عظیم لیڈر کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ اس کی زندگی علامہ اقبال کے ان الفاظ کا عکس ہوتی ہے: نگہ بلند؛ سخن دل نواز؛ جاں پر سوز اور جب عظیم لیڈر اس دنیا سے جاتے ہیں تب ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس کو پر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف کو قید کی سزا تو اب ہوئی ہے مگر جب انہیں پہلے حکومت اور بعد میں سیاسی پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا؛ اس وقت کیا ہوا؟ میاں نواز شریف کی حمایت میں کس جگہ عوام اس طرح سے امڈ آئے تھے جس طرح سے عوام بھٹو کی حمایت میں ایک سیلاب کی طرح سارے سرکاری بند توڑ کر امڈ آئے تھے۔ مشہور لطیفہ ہے کہ ایک شخص سے پوچھا گیا کہ شیر انڈے دیتا ہے یا بچے ؟ اس نے جواب میں کہا تھا کہ شیر تو شیر ہے جنگل کا بادشاہ ہے۔ اس کی اپنی مرضی چاہے انڈے دے اور چاہے تو بچے دے۔ میاں نواز شریف بھی شیر ہیں۔ وہ اپنے لیے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنا موازنہ جنوبی افریقہ کے نجات دہندہ اور دنیا کے عظیم اسیر نیلسن منڈیلا سے بھی کریں تو انہیں کون روک سکتا ہے؟ اس لیے وہ اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے ذوالفقار بھٹو کے حوالے بھی دیا کرتے ہیں مگر بھٹو اور نواز شریف میں اتنا فرق ہے جتنا فرق لوہے اور سونے میں ہوتا ہے۔ ذوالفقار بھٹو تو عالمی سطح کے رہنما تھے، میاں نواز شریف تو اپنی تصویر بینظیر بھٹو کے فریم میں بھی فٹ نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ جب وہ اسی کی دہائی میں جلاوطن تھی تب انہوں نے جلاوطنی میں بیٹھ کر تحریک برائے جمہوریت چلائی تھی۔ وہ تحریک اتنی شدید تھی کہ جنرل ضیاء کی حکومت جڑوں تک ہل گئی تھی اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء نے میڈیا پر آکر اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ’’سندھ میں احساس محرومی ہے‘‘ اس احساس محرومی کی بہت ساری وجوہات تھیں اور ان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سندھ کو اس شخص سے محروم کردیا گیا تھا جس شخص نے اسیری کے دوراں لکھا تھا کہ ’’میں رانو ہوں اور سندھ میرا انتظار مومل کی طرح کر رہا ہے‘‘ میاں نواز شریف کچھ بھی کرے اور میاں نواز شریف کچھ بھی کہے مگر وہ نہ رانجھا بن سکتا ہے اور نہ مہینوال؛ اس کے لیے کوئی سرد دریا کی لہروں سے نہیں لڑ سکتے اور اس کے لیے کوئی زہر کا جام نہیں پی سکتا۔ زندگی بذات خود بہت تلخ ہے۔ اس کو شیریں کرنے کے لیے ایک عظیم شخصیت کو مصری کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ عوامی زندگی میں جو تلخی ہے اس کا تذکرہ کرنے کے بجائے جب ہمارے لیڈر اپنے ساتھ ہونے والے بہت معمولی سی بات کا ذکر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تب وہ عوام کی دلوں کے جنت سے نکل جاتے ہیں۔ بھٹو ابھی تک عوام کے دل میں دھڑک رہا ہے۔ یہ بھٹو کا جادو ہے کہ اس کے نام پر بینظیر بھٹو کی اتنی ساری سیاسی غلطیاں عوام نے بھلادیں اور یہ بھٹو کا جادو ہے جس کے باعث آصف علی زرداری جیسے شخص نے پانچ سال پورے پاکستان اور دس برس تک سندھ پر حکومت کی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی حکومت بذات خود بھٹو کی شخصیت سے بہت بڑی زیادتی ہے۔ میاں نواز شریف کو اس قطار میںکھڑا نہیں کیا جاسکتا جس قطار میں دنیا کے وہ لوگ کھڑے ہیں جن لوگوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے بہت بڑی قربانیاں دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کو ملنے والی سزا کے بعد ان کا شمار بھی عالمی شخصیات میں ہوگا مگر وہ عالمی شخصیات وہ ہیں جنہیں کرپشن کے باعث حکومت سے ہٹا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا۔میاں نواز شریف کا نام ان حکمرانوں میں آئے گا جن حکمرانوں نے اپنے ملک کو لوٹا۔ جن حکمرانوںکی حکومت میں عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے اور وہ امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔ میاں نواز شریف کا تذکرہ تاریخ ساز شخصیت کی طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ میاں نواز شریف نے تاریخ کی مثبت دھار کو کند کرنے میں کردار ضرور ادا کیا ہے۔ تاریخ کے طالب علم کہتے ہیں کہ تاریخ کی تعمیر عوام کرتے ہیں مگر وہ عوام ایک عظیم رہنما کی قیادت میں سفر کرتے ہیں۔ مگر عوام سے دھوکہ کرکے اسے اپنے ساتھ چلانے والے لیڈر تاریخ کو تعمیر کرنے کے نام پر تاریخ کو تباہ کرتے ہیں۔ تاریخ میں ہر فرد کے لیے الگ الگ حیثیت ہے۔ تاریخ کسی سے رعایت نہیں کرتی۔ وہ لوگ جو بہت غریب تھے؛ جن کے پیٹ میں روٹی نہ تھی اور جن کے تن پر کپڑے نہ تھے ان لوگوں کے نام پر تاریخ فخر کرتی ہے اور وہ لوگ جو سونے کا چمچہ منہ میں لیے پیدا ہوئے جنہوں نے پوری زندگی بہت بڑے محلات میں گزاری اور جن کے پاس دولت کے انبار تھے تاریخ میں ان تذکرہ تک نہیں ملتا۔ تاریخ امیر لوگوں کی میراث نہیں ہے۔ تاریخ عظیم لوگوں کی بستی ہے۔ اس لیے جب یونان کے عظیم مفکر اورا نقلابی استاد سقراط کو زہر کا پیالہ پیش کیا گیا تب اس نے کہا تھا کہ جدائی کی گھڑی آ گئی ہیں میں جا رہا ہوں تم یہاں پر ٹھہرے ہوئے ہو مگر کون صحیح ہے؟ اس سوال کا درست جواب آنے والا وقت دے گا۔ وقت نے تاریخ کی صورت میں وہ جواب دے دیا۔ سقراط مر کر بھی نہیں مرا۔ وہ آج بھی ہر سچ کہنے والے شخص کے روپ میں زندہ ہے۔ سیاست میں کچھ لوگ مال کمانے آتے ہیں اور کچھ کمال کرنے آتے ہیں۔ جو لوگ سیاست میں کمال کرتے ہیں وہ مال کے پیچھے نہیں جاتے۔ وہ لوگ نظریاتی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے اصولوں کے لیے اپنی زندگی بھی قربان کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ خوشبو گل کی طرح اپنے پیغام پر خود فدا ہواجاتے ہیں۔ میاں نواز شریف بھلے اپنے آپ کو ایک نظریاتی لیڈر قرار دیں مگر تاریخ اس کا تعارف اس طرح سے نہیں کروائے گی جس طرح سے وہ نظریاتی لیڈروں اور باغیوں کا کرواتی رہی ہے۔ کیا ہم بھول سکتے ہیں کیوبا کے ان انقلابیوں کو جن کو جب بیتستا حکومت کی طرف سے سزا سنائی جا رہی تھی تب انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہماری بغاوت کامیاب ہوجاتی تو جس جگہ پر تم بیٹھے ہوئے ہو؛ اس جگہ پر ہم بیٹھے ہوتے اور جس کٹہرے میں ہم کھڑے ہیں اس کٹہرے میں تم کھڑے نظر آتے۔ کہاں میاں نواز شریف اور کہاں فیدل کاسترو! فیدل کاسترو کا نام تو میاں نواز شریف لے لیے اجنبی نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ انہیں اس دنیا سے گئے ابھی اتنا عرصہ نہیں گذرا ۔ کیوبا میں کاسترو کا نام کیوبا کے عوام فخر سے لیتے ہیں۔ کیوں کہ فیڈل کاسترو نے کیوبا خوددار اور غیور ملک میں تبدیل کیا۔ بھٹو کی بھی بہت ساری غلطیوں کے باوجود یہ ہی کوشش تھی وہ پاکستان کو نہ صرف ناقابل شکست بلکہ ایک قابل فخر ملک بنائے۔ اس لیے آج بھی ہم سے جب بیرون ملک پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کا تعلق بھٹو کے ملک سے ہے؟ تو ایک فخر کا احساس ہمیں چھوتا ہوئے گزرتا ہے۔ مگر جب کل ہم سے کوئی کہے گا کہ کیا آپ کا تعلق نواز شریف کے ملک سے ہے؟ تو ہماری شرمساری ہمارے چہرے کی سرخی سے عیاں ہوگی۔