قابض بھارتی فوج نے مداخلت فی الدین کاایک بارپھرارتکاب کرتے ہوئے 5اگست 2019سے کشمیرکی تاریخی جامع مسجد سری نگرکومحاصرے میں لے رکھااورتام دم تحریر18جمعہ مسلسل ہوچکے ہیں کہ مسلمانان کشمیر کو مسجدمیں نمازجمعہ کی ادائیگی سے روک لیاگیاہے اس طرح گذشتہ 4 ماہ سے جامع مسجد سری نگرمیںنمازجمعہ ادانہ ہوسکی۔اسے قبل 2016ء میں بھی جامع مسجدسرنگر اس وقت4ماہ تک مسلسل مقفل رہی کہ جب برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں عوامی احتجاجی لہر نے کشمیرپربھارتی ناجائزقبضے اوراسکے جارحانہ تسلط کو مستردکردیا۔خیال رہے جامع مسجد سرینگر کی سخت سے سخت ناکہ بندی کر دی گئی ہے اوراسے مسلسل محصور رکھا گیاہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیامحرکات ہیں کہ جن کی آڑمیں ظالم ہندوحکمرانوں کی جانب سے جامع مسجدسری نگرکومقفل کردیاجاتاہے اوریہاں نمازجمعہ کی ادائیگی اورنمازیوں کی آمدپرقدغن عائدکردی جاتی ہے اورآج بھی مداخلت فی الدین کا یہ مہیب سلسلہ بدستورمن وعن کیوں جاری ہے۔اس سوال کاایک ہی جواب ہے اوروہ یہ کہ جامع مسجدسری نگرروزاول سے ہی مسلمانان کشمیرکادینی اورسیاسی پلیٹ فارم رہی ہے ۔سکھ حکمرانوں کاظلم وجبرہو،ڈوگرہ حکمرانوں کی مطلق العنانیت ہو،سری نگرکے لال چوک میں نہرواورشیخ عبداللہ کاایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کرکشمیراورکشمیریوں کی جدید طرز غلامی کی واردات پررقص کرنااوردھمال ڈالنے کی مذموم اورشرمناک حرکت ہویاپھرگذشتہ چھبیس برسوں سے چار وزرائے اعلیٰ کی چھاتہ برداربھارتی فوج اورریاستی پولیس کی بربریت اورسفاکیت کادوردورہ ہو،سرینگرکی جامع مسجدسے اس اندھیرنگری،شخصی غلامی ،جدیدطرز غلامی کی واردات اورسفاکیت اور ظلم وبربریت کے خلاف نہ صر ف صدائے احتجاج بلندہوئی،بلکہ اس ظلم عظیم کے خلاف صف بندی بھی ہوتی رہی ہے۔ ہندوکویہ برداشت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ عصرحاضرہی کی طرح دورماضی میں بھی جامع مسجدکے دروازوں پرقفل چڑھادیئے گئے اوریہاں نمازیوں کی آمدکوسختی سے روکاگیا۔ تاریخ کے دریچوں سے جھانکنے کے بعد یہ معلوم پڑتا ہے کہ ماضی میں بھی جب جامع مسجدسری نگر سے اٹھنے والی صدائے حق اورظلم وبربریت کے خلاف یہاں ہونے والی صف بندیوںکوروکنے کی کوشش کی گئی اور کشمیری عوام کے اس بڑے اورعظیم مرکزی پلیٹ فارم کو بند کیا گیا ہے اور ظالم حکمرانوں کی طرف سے جامع مسجد سرینگر میں نماز ادا کرنے کاارتکاب ہوتارہاہے ۔اب جبکہ تاریخ بتلارہی ہے کہ ہردورمیں کشمیرمیں ہورہے ظلم وستم اوربربریت کے خلاف حق وصداقت کی آوازبلندکرنے کے سب سے بڑے پلیٹ فارم جامع مسجد سرینگر کو نمازکی ادائیگی اورنمازیوں کی آمدکے لئے بندکرناایک ظالمانہ اور اسلام دشمنانہ حربہ استعمال ہوتارہاہے ۔اس لئے پرانے مزاج کے حامل نئے حکمران کشمیر، کشمیری مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے آج بھی یہی ظالمانہ رویہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ماضی میں جامع مسجدسری نگرسے بلندہونے والی آوازدب نہ سکی اورآج تک یہ آوازمسلسل بلندہورہی ہے تواکیسویں صدی کی یہ قدغن حق وصداقت کی اس آوازکودبا سکتی ہے ؟سکھ حکمرانوں نے 19ویں صدی میں تاریخی جامع مسجدکو23برسوں تک مقفل رکھا،جبکہ نام نہادجمہوری بھارت نے اکیسویںصدی میںخداکے اس گھرکوباربارمہینوں تک بندرکھ کر 21ویں صدی میں اسلام دشمنی کاریکارڈ قائم کیا۔ ماضی میںجن بودے بہانوں کے سہارے جامع مسجدسری نگرکومقفل کر دیاجاتار ہا ہے اور یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی اور نمازیوں کی آمد پر قدغن عائدکردی جاتی رہی ہے۔آج بھی ایسے ہی بہانے تراش کربندشوں کایہ مہیب سلسلہ بدستورمن وعن جاری ہے۔لیکن مداخلت فی الدین کے مرتکبین کومعلوم ہوناچاہیے کہ جامع مسجدسری نگرجس طرح روزاول سے مسلمانان کشمیرکادینی اورسیاسی پلیٹ فارم رہاہے،اس کی شان اسی طرح دوبالاہوتی رہے گی کیوںکہ مساجد اللہ کے گھرہیں اورانکی شان اسی نے دوبالاکررکھی ہے۔ اس لئے چاہئے ماضی کے سکھ حکمرانوں کاظلم وجبرہو،ڈوگرہ حکمرانوں کی مطلق العنانیت ہو،سر نگرکے لال چوک میں نہرواورشیخ عبداللہ کاایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کرکشمیراورکشمیریوں کی جدید طرز غلامی پر رقص کی وارداتیں ہوںیاپھرگذشتہ چھبیس برسوں سے کئی وزرائے اعلیٰ کی چھاتہ برداربھارتی فوج اورریاستی پولیس کی بربریت اورسفاکیت کادوردورہ ہوسرینگرکی جامع مسجدسے اس اندھیرنگری ،شخصی غلامی ،جدیدطرزکی غلامی اورظلم وبربریت کے خلاف نہ صر ف صدائے احتجاج بلندہوتارہے گا،بلکہ اس کے خلاف صف بندی بھی ہوتی رہی گی۔ عصرحاضر کے ظالم وسفاک قوتیں،حکومتیں جامع مسجدکے دروازوں پرقفل چڑھانے کاگناہ عظیم کریں اوریہاں نمازیوں کی آمدکوطاقت کے بل بوتے پرسختی سے روکیں۔ سری نگرشہر کے نوہٹہ علاقے میں صدیوں سے کشمیری عوام کیلئے مرکز کی حیثیت رکھنے والی جامع مسجد کے مینار اور گنبد4ماہ سے خاموشی کے ساتھ وادی کے لیل و نہار کی منظر کشی کر رہے ہیں جبکہ موجودہ حکومت کی طرف سے اس تاریخی مسجد کی مسلسل ناکہ بندی سے سکھ دور کی تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔جامع مسجد سرینگر میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سکھ دور اقتدار کے دوران دیوان موتی رام کو کشمیر کا گورنر تعینات کیا گیا جس نے1819ء میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندی عائد کی ۔ بہرکیف!جس طرح ہردورمیں ظلم وستم اوربربریت کے خلاف حق وصداقت کی آوازبلندکرنے کے کشمیرکے سب سے بڑے پلیٹ فارم جامع مسجد سرینگر کو نمازکی ادائیگی اورنمازیوں کے لئے بندکرناایک اسلام دشمنانہ حربہ استعمال ہوتارہاہے۔