کچھ لوگ بہت دور کی جوڑتے ہیں جیسے کسی نے جرمنی جاپان کے بارڈر جوڑ دیئے۔ کل سابق افغان صدر حامد کرزئی لندن میں نواز شریف سے ملے تو کسی نے یہ دور کی ہانکی کہ کرزئی چونکہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے کارندے ہیں لہٰذا ملاقات اسی ’’ڈیل‘‘ کے ضمن میں ہوئی جو حال ہی میں ہوئی ہے اور اسی کے تحت پاکستان کے ’’ایوان خوفزدگان‘‘ نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی قانون سازی کی۔ دیکھیے کہاں کا ناتا کہاں سے جوڑ دیا۔ خیر، یہ جوڑ اپنی جگہ، تاریخ کی سب سے بڑی قانون سازی اپنی جگہ۔ یار لوگوں نے تو یہ بھی تبصرہ کر دیا کہ حکومت کے اختیارات کا تعین ہو گیا۔ حکومت کرنے کی ذمہ داری ’’بدستور‘‘ ارباب جبرو قدر نبھائیں گے اور مزے اڑانے کا شوق خان صاحب اور ان کی میگا کابینہ کے ارکان پورا کریں گے۔ اس میں نئی بات کیا ہے بھئی، وہ ڈیڑھ سال سے یہی تو کر رہے ہیں۔ یعنی مزے اڑا رہے ہیں۔ وزیر اعظم بنتے ہی فرمایا تھا حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ آسان بھی اور بہت مزے کا بھی اور مزے بھی کیسے کہ ڈیڑھ سال سے وارے نیارے ہیں۔ قرضے پہ قرضہ لیے جائو، مزے اڑاتے جائو، تازہ سکور قرضوں کا یہ ہے کہ گزرے سال یعنی 2019ء کے جولائی سے نومبر تک کے پانچ مہینوں میں 344ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ پورے سال میں یہ اضافہ 5ہزار 678ارب کا ہوا۔ مراد سعید نے کہا تھا، خان آئے گا، 200ارب لائے گا۔ یہاں تو بجائے 200کے ہزاروں ارب آ گئے۔ ٭٭٭٭٭ ڈیل اپنی جگہ تاریخی لیکن احباب مسلم لیگ ن کو لتاڑتے ہیں کہ یہی کچھ کرنا تھا تو 2014ء ہی میں کر لیتے اور ابھی تک حکومت میں ہوتے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ سب کچھ لٹانے کے بعد ہی ہوش کیوں آئے۔ ارے میاں، ہوش میں آنے میں وقت تو لگتا ہے۔ سمجھداری راتوں رات تو نہیں آ جاتی اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ نواز شریف 2014ء ہی میں سمجھداری پر اتر آتے تو قوم وہ نظارے کاہے کو اور کہاں سے دیکھتی جو اس نے چار سال تک مسلسل دیکھے۔ ایک کے بعد ایک۔ یوں سمجھئے کہ ایسا بلاک بسٹر Block Busterتھرلر تھا جو پردہ سکرین پر آیا تو چار سال کے بعد ہی اترا۔ دیکھئے کیسے کیسے تاریخ لکھی گئی اور کیسی کیسی لکھی گئی۔ ڈان لیک، دھرنا ون، پانامہ لیکس، اقامہ لیکس، لاک ڈائون، سنسنی، سسپنس، تھرل ایسی کہ مسلسل Edge of the seatرہے۔ پورے چار سال اور پھر اسی ’’تھرلر‘‘ سے تبدیلی نے جنم لیا جس کے مزے ساری قوم اب مزے لے لے کر لے رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس ’’ڈیل‘‘ سے کیسے کیا فائدہ ہوا، ابھی کیا کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال، پی ٹی آئی کے ایک ’’باخبر‘‘ نے فخر سے بتایا کہ سب سے زیادہ فائدہ مند ہم رہے۔ پانچ سال کی مدت بھی پورے کریں گے کہ سارے خطرات ٹل گئے اور اگلا الیکشن بھی جیتیں گے کہ ضمانت مل گئی۔ یہ ضمانت ملنے والی بات موصوف نے پرسوں بتائی اور کل سراج الحق کا یہ ’’انوکھا‘‘ بیان سامنے آ گیا کہ 2023ئکے الیکشن جیتنے کے لیے حکومت نے ابھی سے ہتھکنڈے شروع کر دیئے۔ اس بیان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ہتھکنڈے اختیار کریں پی ٹی آئی کے دشمن۔ پی ٹی آئی کو کیا پڑی ہے۔ اسے تو، بقول باخبر کے، ضمانت مل گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پیپلزپارٹی کو بھی ’’اجر‘‘ ملا ہے۔ سندھ حکومت توڑنے کا انتباہ واپس ہو گیا ہے۔ اب وہ مزے سے باقی تین سال تک ناقوس بجائے گی اور ڈیل کے گن گائے گی۔ مسلم لیگ کو یہ ملے گا کہ حمزہ شہباز رہا ہو جائیں گے اور شاید سعد رفیق بھی۔ احسن اقبال کی رہائی مشکل ہے کہ موصوف شہباز شریف کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور شاہد خاقان عباسی کی تو ازبسکہ مشکل کیونکہ وہ تو انہیں دونوں آنکھ نہیں بھاتے۔ ٭٭٭٭٭ اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب آرڈیننس کی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ ٹھیک لیکن اس سے فرق کیا پڑے گا؟ یہ کونسل محض ’’اظہار رائے‘‘ کا ایک سکالرانہ ادارہ ہے اور بس، اس سے آگے کچھ نہیں اس لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جو باتیں غیر اسلامی قرار دی گئی ہیں ان میں سرفہرست ملزم کو جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی مجرم مان لینا ہے۔ جرم ثابت ہونا تو بعد کی بات، یہاں تو ان کو بھی مجرم مان لیا گیا جس کا جرم کیا ہے، خود نیب کو بھی نہیں معلوم۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کا ’’جرم‘‘ ابھی تک نامعلوم ہے۔ اگرچہ صادق و امین لوگ سال بھر پہلے خبر لائے تھے کہ دونوں وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ پھر کیا ہوا، ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ جرم ثابت ہونے تک ملزم بے گناہ ہے کا اصول محض اسلامی نہیں، دنیا بھر کا ضابطہ ہے لیکن نیب کا قانون الگ ہے۔ ’’تم مجرم ہو اس لیے اپنی بے گناہی ثابت کرو‘‘ کا قانون چلتا ہے اور اسی کے تحت لاشوں کو بھی ہتھکڑی لگاتا ہے۔ اگر اس قانون کو ختم کر دیا گیا تو چیئرمین نیب کے کرنے کو کیا رہ جائے گا، وہ سر سے پائوں تک فارغ البال نہیں ہو جائیں گے؟ ٭٭٭٭٭ نیب کا ادارہ پہلے پہل باضابطہ شکل میں کب بنا تھا؟ جی ہاں، حضرات امیر معاویہؓ کے دور میں لیکن اس کا اصول یہ نہیں تھا جو اب ہے بلکہ عین اسلامی اصول تھا کہ ثبوت بنا کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس ادارے کا نام ’’الاستخراج‘‘ تھا۔ سربراہ کو ’’صاحب الاستخراج‘‘ کہا جاتا تھا۔ ادارے کی ذمہ داری یہ تھی کہ پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرے۔ ادارہ سارے ثبوت اکٹھے کرتا اور ملزم کے سامنے رکھ کر کہتا، نکالو رقم، ثبوت نہ ملتا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ کس کے خلاف کیا تحقیقات ہوئی۔ اور پھر وہ رقم نکلوا کر خزانے میں جمع کرا دیتا۔