سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین کے لئے مایوس کن ہے مگر مسلم لیگ (ن) کے لئے بھی حوصلہ افزا نہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار‘ ان کے جانشین جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار اور ضمانت بحال رکھنے والے بنچ میں شامل تھے اور یہ فیصلہ دے کر انہوں نے ثابت کیا کہ دیانتدار‘ بااصول اور آئین و قانون کے پابند جج صرف مقدمے کی نوعیت دیکھتے ہیں‘ ملزم یا مدعی کی حیثیت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے کم و بیش ایک سال تک سپریم کورٹ بالخصوص چیف جسٹس ثاقب نثار اور پانامہ کیس کا فیصلہ کرنے والے پانچ ججوں جسٹس آصف سعید کھوسہ‘ جسٹس گلزار احمد‘ جسٹس اعجاز افضل خان‘ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن کے خلاف معاندانہ مہم چلائی‘ ایسی زبان استعمال کی جو کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتی۔ دھمکیاں دیں اور عوام کو ان کے خلاف اُکسایا۔ کوئی جج مگر مرعوب ہوا نہ متاثر اور نہ تعصب کا شکار۔ آج کے فیصلے نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے بیانئے کو سو فیصد غلط’’کیوں نکالا‘‘ مہم کو بغض و عناد اور قانونی معاملات سے لاعلمی پر مبنی ثابت کیا اور جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی اصابت رائے‘ انصاف پسندی اور غیر متعصبانہ روش پر مہر تصدیق ثبت کی۔ میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہے۔ عمر عزیزکے کم و بیش چالیس سال دشت سیاست کی دشت نوردی کی اور پورا خاندان 1999ء میں آزمائش کا شکار ہوا مگر یہ بدیہی حقیقت نہ جان پایا کہ کسی بھی مہذب ریاست میں شہری کا آخری سہارا خدا کی ذات کے علاوہ عدل و انصاف کے ادارے ہوتے ہیں اور ہر حکمران انہیں مضبوط بنا کر اپنے آپ ‘ اپنے بچوں اور قوم کو ناانصافی‘ ظلم و زیادتی اور ریاستی جبر و استبداد سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ طاقت اور دولت کے خمار نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ کبھی خیال ہی نہ آیا کہ ایک دن انہیں بھی انصاف پسند آزاد‘ خود مختار اور دلیر عدلیہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میاں صاحب اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ دوسروں کے لئے گڑھا کھودنے کے شوق میں عدلیہ کو بے توقیر کیا‘ اس کے پر کاٹے اور قوت فیصلہ سے محروم‘ چاپلوس اور تابعدار عدلیہ وجود میں لانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے اور فائدے میں رہے‘ 1997ء میں وہ سرسری سماعت کی ایسی عدالتیں قائم کرنے کے خواہش مند تھے جس میں ایک فوجی اہلکار موجود ہو اور چند ہفتوں میں فیصلہ سنا کر ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیں‘ حق اپیل محدود اور اختیار سماعت محدود تر۔ اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے مگر مزاحمت کی اور بعدازاں جسٹس اجمل میاں نے ان عدالتوں کو کالعدم قرار دیدیا‘ ورنہ طیارہ کیس میں میاں صاحب خود ایسی ہی کسی عدالت کا نرم چارہ ہوتے۔ 2018ء میں ایک بار پھر میاں صاحب نے عدالتی اختیارات محدود کرنے کے لئے مسودہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرانا چاہا جو اپوزیشن کے عدم تعاون کے باعث سرد خانے میں چلا گیا۔ نیب کی سربراہی کے لئے سپریم کورٹ کے حاضر سروس سینئر موسٹ جج کو نامزد کرنے کی تجویز بھی پذیرائی حاصل نہ کر سکی ورنہ ایون فیلڈ‘ العزیزیہ اور فلیگ شپ کیسز میں انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہوتا اور پتہ چلتا کہ اپیل‘ دلیل اور وکیل کا حق محدود کرنے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ممتاز کالم نگار عطاء الحق قاسمی صاحب کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں میاں صاحب نے یہ تجویز پیش کی تو جناب عارف نظامی‘ مجیب الرحمن شامی‘ ایاز میر اور راقم الحروف سمیت اخبار نویسوں نے ڈٹ کر مخالفت کی اور اس تجویز کے منفی نتائج و عواقب سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود میاں صاحب کے عدلیہ مخالف خیالات میں تبدیلی نہ آئی اور پانامہ کیس میں نااہلی کے بعد انہوں نے دل کے پھپھولے خوب پھوڑے۔ آج مگر جاتی امرا کی سب جیل میں انہیں شائد احساس ہو کہ عدلیہ اتنی بھی بری اورمتعصب نہیں جتنا پاکستانی اداروں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے ان کے بعض مشیروں کا خیال ہے اور جس سے میاں صاحب ہمیشہ متفق نظر آئے۔ آج کے فیصلے سے مخالفین اور عجلت پسند دانشوروں کو میاں نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی کا سبب سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ضمانت کی منظوری کا مطلب ہوتا ہے کہ ملزم نے عبوری عرصے کے لئے کچھ پابندیاں قبول کی ہیں ‘یہ کہ وہ عدالتی فیصلوں پر رائے زنی ‘ امن و امان کی صورتحال خراب کرنے اور عدلیہ کے علاوہ گواہوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کریں گے‘ اچھے بچے بن کر رہیں گے تاکہ مدعی ضمانت کی تنسیخ پر اصرار نہ کریں۔ مچلکے جمع کرانے والے عدالت کو تحریری طور پر ملزم کی نیک چلنی کی یقین دہانی کراتے ہیں اور یہ اطمینان ہونے کے بعد کہ ملزم یا ملزمان طے شدہ حدود سے تجاوز نہیں کر رہے ضمانت کنفرم ہوتی ہے‘ میاں صاحب اور مریم نواز شریف نے چند ماہ کے دوران نیک چلنی ثابت کی اور سپریم کورٹ سے بھی ضمانت کے حقدار قرار پائے جبکہ نیب عدالت عظمیٰ کے سامنے تنسیخ ضمانت کی ٹھوس وجوہات پیش نہیں کر پائی۔ جس کا مطلب ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے اپیلوں پر حتمی فیصلہ آنے تک میاں نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی برقرار رہے گی اور وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مسلم لیگ(ن) کو درست مشورہ دیا ہے کہ وہ نئی قیادت منتخب کر لیں۔ ویسے بھی اڈیالہ جیل نے باپ بیٹی کی خوش فہمیاں دور کر دی ہیں اور جیل کی سختیاں برداشت کرنے کے بلند بانگ دعوے دم توڑ چکے ہیں لہٰذا ٹوئٹر اکائونٹ شدومد سے ایکٹیو ہونے کی اُمید ہے نہ کسی جلسے‘ ریلی اور مظاہرے میں نمودار ہونے کا امکان۔سول بالادستی اورووٹ کو عزت دو کی مہم بھی اڈیالہ جیل کے کسی کونے کھدرے میں دفن ہو چکی‘ جسے بعض خوش فہم ہوائیں دے کر اپنے لیڈر کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں۔ ع شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو یہ سوال اُٹھ رہاہے کہ شریف خاندان این آر او مانگ رہاہے یا نہیں؟ اور عمران خان ایسی کسی تجویز پر صاد کر سکتے ہیں؟ پلی بارگین کا قانونی راستہ کھلا ہونے کی صورت میں این آر او کی کالک حکومت اپنے مُنہ پر مل سکتی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ کو اس کا یارا ہے۔ ملک کو عدم استحکام سے بچانے کے لئے پلی بارگین پر دونوں فریق راضی ہو سکتے ہیں ۔ تاہم حتمی فیصلہ عدالت کرے گی اور یہ کام چھپ چھپا کر نہیں ہو گا۔ ترکی اور قطر کی طرف سے خفیہ معاہدے کی کوششیںاس صورت میں کارگر ثابت ہو سکتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ‘ عدلیہ‘ حکومت‘ نیب منفی قومی ردعمل کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوں اور احتساب کی بساط ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی جائے۔ پاکستان کرشموں کی سرزمین ہے یہاں ہر بات ممکن ہے مگر عمران خان‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ‘ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جسٹس جاوید اقبال میں سے ہر ایک کو اپنی عزت عزیز ہے‘ قانون کی حکمرانی اور بلا تفریق احتساب کے حوالے سے ان کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور احتسابی عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے یہ ثابت قدم ہیں‘ ثابت قدم رہیں گے۔ البتہ انسان اگر بیمار ہو‘ کارزار سیاست کا معرکہ انجام دینے کے قابل نہ رہے اور سیاسی مستقبل زیادہ روشن نظر نہ آئے تو سیانے کہتے ہیں گانٹھ ڈھیلی کرنا عقلمندی ہے۔ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کا محاورہ متروک ہو چکا ‘گانٹھ ڈھیلی کرنے والوں کو احتساب کے شکنجے سے نکلنے میں دیر لگتی ہے نہ بیرون ملک روانگی میں کوئی رکاوٹ ۔ انصاف بالآخر عدالتوں سے ملتا ہے اور عدلیہ مخالفت سے انسان کی مشکلات بڑھتی ہیں کم نہیں ہوتیں‘ ماضی کا تجربہ یہی تھا‘ شریف خاندان کو بھی شائد اب سمجھ آ ہی جائے۔