لاسا کی وہ سرد رات اپنے سارے ستاروں کے ساتھ صوفیہ کی بہت خوبصورت باتوں میں ناقابل فراموش بنتی جا رہی تھی۔ ہم اس وقت جدید دور میں بدھ مت کی افادیت کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ بدھ مت قدیم کلچر کی طرح بہت پیچھے رہ جائے گا اور زندگی سائنس کے سہارے بہت آگے نکل جائے گی ۔ صوفیہ کا خیال تھا کہ لوگ بھلے دور نکل جائیں مگر وہ لوٹ آتے ہیں۔ میں نے صوفیہ سے کہا کہ’’ اس کارپوریٹ کلچر میں تو سیاست بھی بے معنی بنتی جا رہی ہے‘‘ صوفیہ نے کہا کہ’’ سیاست طاقت حاصل کرنے کی جستجو ہے۔ سیاستدان سیاست کے سہارے اقتداری محل میں داخل ہونا چاہتے مگر سچ کی تلاش کرنے والے تو تاج و تخت کو ٹھکرا کر محل سے نکل جاتے ہیں‘‘۔ صوفیہ کا اشارہ گوتم بدھ کی طرف تھا۔ میں نے اس کے گلے میں لٹکتے ہوئے گوتم کے لاکٹ اپنی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا کہ’’ صوفیہ! اس زمانے میں سچ کی تلاش میں سکھ کون چھوڑتا ہے؟ ‘‘صوفیہ نے اپنی نیلی اور گہری آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا کہ’’ میں اگر اس سرد اور سیاہ سناٹے میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ میں سچ جاننا چاہتی ہوں؟‘‘’’ مگر کیوں؟‘‘ میں نے ذرا زور دیکر پوچھا۔ صوفیہ نے ایک بار میری طرف دیکھا اور پھر اجنبی آسمان کی پراسرار بلندیوں کو گھورتے ہوئے اس کے چہرے پر موہوم سی مسکراہٹ ابھری اور اس نے بہت دھیمے لہجے میں کہا کہ ’’کیوں کہ سچ میں نروان ہے‘‘ کیا نروان دھوکہ نہیں؟ کیا یہ ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت نہیں؟ میرے ذہن میں اس لفظ کے حوالے سے بہت سارے سوال اٹھ رہے تھے مگر رات بہت ہوچکی تھی۔ میں صوفیہ سے کہا کہ ’’کل ہم صبح کو جوگانگ مندر جائیں گے۔ کیا تم ساتھ چلنا پسند کرو گی؟‘‘ اس نے اپنی پلکیں جھپکا کر خوشی سے کہا ’’ضرور‘‘ اور پھر پوچھا ’’کس وقت؟‘‘ میں نے کہا ’’میں صبح اٹھ کر آپ کو فون کروں گا‘‘ صوفیہ نے کہا ’’میں منتظر رہوں گی‘‘ ’’رات کتنی سیاہ اور صبح کتنی صاف اور اجلی ہے؟‘‘ میں دل میں سوچ رہا تھا اور لاسا کے نیلے آسمان پر اڑتے ہوئے سفید بادل دیکھ رہا تھا کہ پیچھے سے صوفیہ کی آواز آئی ’’ہائی‘‘ میں اسے مڑکر دیکھا۔ اس نے سفید پھولوں والی کالی شرٹ اور نیلے رنگ کی اسکرٹ پہنی ہوئی تھی۔ لاسا کی سرد ہوا میں اس کے براؤن بال اڑ رہے تھے۔ وہ میرے قریب آئی اور کہنے لگی ’’آسمان میں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔ سچ یہ ہے میں نے پوری زندگی میں اتنا نیلا آسمان کہیں نہیں دیکھا‘‘ صوفیہ نے ہنستے ہوئے کہا ’’یہ نروان کا رنگ ہے‘‘ اور ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے۔ میرا خیال تھا گاڑی کو پھر جنگل کے راستے پر چلنا ہوگا مگر جوگانگ مندر تو شہر کے دل میں تھا۔ وہ چینی؛ تبت اور نیپالی آرکیٹیکچر کا شاہکار تھا۔ جب ہم مندر میں اندر گئے تو وہ مندر کم اور میوزم زیادہ تھا۔ ہمیں اپنی گائیڈ نے بتایا کہ یہ بہت قدیم مندر ہے مگر اب یہ صرف مندر نہیں بلکہ ایک تاریخی میوزیم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بدھ مت کی یونیورسٹی بھی ہے۔ مندر میں موجود مورتیاں اس قدر قدیم تھی کہ انتظامیہ نے ان کی تصاویر بنانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ کیوں کہ کیمرا کا فلیش ان پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ اس مندر میں گوتم کی پوری زندگی کا سفر مورتیوں کی صورت میں سمایا گیا تھا۔ اس مندر میں وہ مورتی بھی تھی جس میں گوتم اپنی شریک حیات کے ساتھ شادی کے ابتدائی دنوں والی خوشیوں میں کھویا ہوا نظر آتا ہے۔’’ مگر گوتم کی زندگی تو اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر تھی۔ وہ ساری مادی مسرتوں کی حقیقت کو سمجھتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ وہاں تک جہاں انسان کائنات کے سامنے اکیلا ہوتا ہے۔ اس طرح جس طرح کوئی تنہا خلاباز بے انت خلا کو تنہا تکتا رہے‘‘ صوفیہ کی یہ بات سن کر میں نے کہا کہ ’’کیا یہ تصور ڈرا دینے والا نہیں ہے؟ اتنی گہری اور بہت بڑی تنہائی تو انسان کو پاگل بنا سکتی ہے‘‘ صوفیہ نے سکون سے میری طرف دیکھا اور کہا ’’اس پاگل پن کے آگے وہ داناہی ہے جہاں پہنچ کر انسان بدھ بن جاتا ہے‘‘ جس وقت صوفیہ گوتم کی مورتیوں کو دیکھ رہی تھی اس وقت اس کی آنکھوں سے عقیدت چھلک رہی تھی۔ اس کی گہری گھور کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ وقت کے پرے چاک کرکے بہت دور جانا چاہتی ہے۔ اس دور میں جس دور میں گوتم بدھ نے سچائی پانے کا سفر شروع کیا تھا۔ صوفیہ سے میں نے پوچھا کہ ’’بدھ مت میں تمہیں کیا خاص بات نظر آئی ہے‘‘ اس نے میری طرف دیکھنے کے بجائے بدھ کی مورتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک سفر ہے۔ روحانی سفر‘‘ میں نے کہا ’’بہت تھکا دینے والا‘‘ اس نے کہا ’’ہر کسی کے لیے نہیں‘‘ جوگانگ مندر میں مندر اوربدھ مت کو بیان کرنے والا ایک اور گائیڈ بھی تھا۔ میں نے بدھ کی بہت ساری مورتیوں کو دیکھنے بعد مندر کے گائیڈ سے پوچھا کہ ’’پتھر سے بنے ہوئے اس البم میں آنند کہاں ہے؟‘‘ میری بات سن کر وہ مڑا اور مجھے کچھ حیرت اور کچھ مسرت سے دیکھنے لگا اور پھر اس نے پوچھا ’’کیا تم بھارت سے آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’نہیں میں پاکستان سے آیا ہوں‘‘ میں نے اس کو بتایا کہ میرا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ راجہ داہر سے قبل سندھ پر بدھ مت والوں کی حکومت تھی۔ آج بھی سندھ کے صحرائے تھر میں جین مندروں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کی عبادت گاہوں کے آثار موجود ہیں۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس خطے میں ٹیکسلا جیسا بدھ مت کا مقام اور کوئی نہیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں بدھ مت والوں نے علم اور آرٹ کی بہت بڑی یونیورسٹی قائم کی۔ آج بھی وہاں کے مقامی لوگ پتھروں سے بدھ کی مورتیاں بناتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ اسلام آباد اور ایبٹ آباد کے درمیان بدھ مت کی قدیم تہذیب کا پورا دور موجود ہے۔ میری باتیں سن کر مندر کا گائیڈ مسکرایا اور اس نے بتایا کہ کچھ ممالک میں بدھ مت کے پیروکار آنند کی مورتی مندروں میں نہیں سجاتے مگر ہم تبت کے بدھ آنند کو بدھ کا اہم ساتھی سمجھتے ہیں۔ میں نے آنند کے بارے میں مزید بات کی تو صوفیہ نے حیرت سے بال جھٹک کر پوچھا ’’تم بدھ مت کے بارے اتنا کیسے جانتے ہو؟‘‘ میں نے اس سے کہا کہ ’’میں نے بدھ مت کی علمی سٹڈی نہیں کی مگر ادب کے معرفت میں نے بدھ مت کو بہت پڑھا ہے۔ میں نے مشہور ادیب ہرمن ہیس کی کتاب ’’سدھارتھ‘‘ کا تذکرہ کیا تو صوفیہ کھل اٹھی۔ اس نے مجھ سے کہا’’اوہ اچھا! تم نے یہ کتاب پڑھی ہے۔ کتنی مختصر اور کتنی گہری کتاب ہے‘‘ میں اس کو بتایا کہ ہرمن ہیس کا یہ ناول ’’آگ کا دریا‘‘ جیسے نالوں کا سبب بنا۔ ہم باتیں کرتے ہوئے اور مندر میں ٹہلتے رہے۔ وہ مندر ایک چھوٹی سی دنیا تھا۔ اس دنیا میں پھرتے ہوئے مجھے یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ اس وقت دوپہر کے دو بجے ہو رہے تھے۔ میں گھڑی دیکھ کر صوفیہ سے کہا کہ ’’بہت دیر ہوگئی ہے۔ اب ہمیں واپس چلنا چاہئیے‘‘ صوفیہ نے مورتیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’یہاں سے باہر نکلنے کو دل نہیں کرتا‘‘ میں نے کہا اصولی طور پر میں تم سے اتفاق کرتا ہوں مگر اب ہمیں چلنا ہوگا۔ ہم واپس گاڑی میں بیٹھے تب بھی ہمارا موضوع بدھ مت تھا۔ میں نے صوفیہ سے پوچھا کہ ’’صوفیہ بدھ مت میں سب سے بڑا تصور جنموں کا تصور ہے۔ بدھ مت والوں کا عقیدہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوسرا جنم لیتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی بہت سارے جنموں کا سلسلہ ہوتی ہے۔ کیا تم اس بات کو مانتی ہو؟‘‘ صوفیہ نے کہا’’یہ بات سائنسی سوچ کے خلاف ہے اور مجھے دو دن تمہارے ساتھ چلتے پھرتے اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ تم ایسی باتوں کو نہیں مانتے۔ مگر تمہیں یہ جان کر شاید مایوسی ہو کہ میں بدھ مت کے اس تصور سے اتفاق کرتی ہوں۔‘‘ اس نے میرا ردعمل دیکھنے کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر گاڑی کی کھڑکی سے کہیں دور دیکھتے ہوئے کہنے لگی ’’تم نہیں مانوگے مگر مجھے ہمیشہ محسوس ہوا ہے کہ میرا ایک جنم مشرق میں بھی ہوا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ نیپال میں یا ہندوستان میں مگر یہیں کہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں نے مشرقی ندیوں پر کشتی میں سفر کیا ہے۔ میں نے گوتم کے مندر کی سیوا کی ہے۔۔!!‘‘ صوفیہ بولتی رہی اور میں سنتا رہا۔ اور وہ ساری باتیں یاد کرتے ہوئے اب سوچ رہا ہوں کہ کیا اخبار میں اس قسم کے داخلی سفرنامے کی گنجائش ہے؟ یہ سفر نامہ تو ایک کتاب کا تقاضہ کرتا ہے!!