تبت کے دارالحکومت لاسا کے ایئرپورٹ پر گاڑی میں بیٹھنے سے قبل ہمارے گلے میں سفید اسکارف ڈالا گیا۔ جس کا مطلب تھا’’تبت میں خوش آمدید۔ امن کی سرزمین پر خوش آمدید۔ اجلے احساسات کی وادیوں میں خوش آمدید‘‘ اپنے گلے میں مخصوص خوشبو والا اسکارف اچھا لگا۔اس کے بعدگاڑی میں بیٹھتے انٹرپریٹر لڑکی نے ہمیں بتایا کہ ایئرپورٹ سے لیکر ہوٹل تک ہمیں نوے منٹ کی ڈرائیو کرنی ہے۔ سفر کے دوران دن کا تھکا ماندا سورج تبت کے بلند و بالا پہاڑوں کی آغوش میں سوجانے کے لیے مغرب کی طرف سرک رہا تھا۔ وہ واقعی ایک ناقابل فراموش شام تھی۔ ایک اجنبی دیس۔ پہاڑی راستہ، ہر قدم پر بدلتا ہوا منظر۔ کہیں پہاڑی حسن آنکھوں پر ڈورے ڈال رہا تھا توکہیں کوئی آبشار رقص کرتی نظر آ رہی تھی۔ حد نظر تک سرسبز وادیاں شام کے دھیان گیان میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ فطرت کا انسان کے مزاج پر کس قدر اثر پڑتا ہے۔ جب خوبصورت اور شفیق فطرت ماں کی مانند انسان کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے تب انسان دنیا کے درد بھول جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران راقم الحروف واقعی کسی بچے کی طرح خوش ہو رہا تھا۔ حالانکہ وہ ایشیا اور امریکہ کے حسین ممالک کو دیکھ چکا تھا۔ چین بھی اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ مگر یہ تبت تھا۔ ہمالیہ کی گود میں ایک نرم خرگوش جیسا روحانی تانے بانے سے بنا ہوا ایک عجیب دیس! لاسا میں سب سے پہلے یہ بات نوٹ کرنے والی تھی کہ ہر جگہ آکسیجن سلنڈر موجود تھا۔ حالانکہ اس شہر میں دور دور تک فضائی آلودگی کا نام و نشان تک نہ تھا تو پھر آکسیجن سلنڈر کی اس جگہ کیا ضرورت؟ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس قدر خوبصورت اور کھلی ہوئی وادیوں کے درمیان باہر سے آنے والے کچھ سیاح سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ لاسا کے باشندوں کو اپنے شہر کے اس مزاج سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ چند مسافروں کو پیش آتا ہے ۔ مگر میں ان مسافروں میں سے نہیں تھا۔ حالانکہ میرے میزبان مجھ سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ کہیں آپ کو سانس لینے میں کوئی تکلیف تو محسوس نہیں ہو رہی؟ میں نے ہر بار انہیں مسکرا کر جواب دیا ’’مجھے یہاں آکر احساس ہوا ہے کہ سکون کی سانس لینا کسے کہتے ہیں؟‘‘ ہم ہوٹل سے فریش ہوکر شہر دیکھنے کے لیے نکل پڑے مگر پورا شہر بند تھا۔ صرف گاڑیاں چل رہی تھیں اور روشنیاں جل رہی تھیں۔ میں نے اپنی مترجم سے پوچھا کہ’’ کیا آج یہاں چھٹی کا دن ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’نہیں تو‘‘ پھر وہ سمجھ گئی اور بتانے لگی کہ ’’ہمارا شہر شام کو ساڑھے چھ بجے مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے‘‘ مگر وہ بند شہر بھی آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا۔ ہمارے میزبان ہمیں اس مقام پر بھی لے گئے جہاں 1952ء کے دوران ایک مختصر لڑائی ہوئی تھی۔ اس مقام کا نام اب آزادی کے حوالے سے ہے۔ یہ وہ سال ہے جب چین نے تبت کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک تبت ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چین کا اقتدار چیئر مین ماؤزے تنگ کے ہاتھوں میں تھا۔ ماؤ کے بعد چین مسلسل تبدیلیوں سے گزرتا رہا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے وقت کے ساتھ اہم ترین فیصلے لیے ہیں۔ ان فیصلوں پر دنیا کی دیگر کمیونسٹ پارٹیوں کو نظریاتی اختلافات بھی ہیں۔ چین نے بہت کچھ تبدیل کیا ہے مگر چین کا تبت کے ساتھ کیا گیا وعدہ تبدیل نہیں ہوا۔ تبت آج بھی ایک خودمختار ریاست کے طور پر چین کے ساتھ خوش ہے ۔ ایک سخت کمیونسٹ ملک ہونے کے باوجود چین کو تبت کی روحانیت سے کوئی تکلیف نہیں۔ جب لاسا کی وہ رات صبح میں بدل گئی تب ہم تیار ہوکر اس ایکسپو میں شریک ہوئے جو ہمالیہ کی گود میں رہنے والے ممالک کا سیاحتی ایکسپو تھا۔ ’’ہمالیہ ماؤنٹین کنٹریز ایکسپو‘‘ میں نیپال کے وفد کی بھرپور شرکت تھی۔ اس ایکسپو میں بھارت بھی تھا۔ اس ایکسپو کا افتتاح وہاں کے گورنر نے کیا۔ اس ایکسپو میں ہمالیہ کے ہمسایوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ اس ایکسپو میں سیاحت کو جدید بنانے کے لیے مختلف خیالات کا اظہار کیا گیا۔ وہ ایک کارآمد مگر کچھ تھکا ددینے والا پروگرام تھا مگر اس مسافر کو معلوم نہیں تھا کہ اس شام ایک ’’بون فائر‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس وقت ہم لاسا میں پہنچے اس وقت لاسا کا درجہ حرارت چار ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اس سردی میں بون فائر کا لطف صرف آگے کے شعلوں سے نہیں اٹھ رہا تھا مگر اس محفل میں موجود لوگ جب اپنے ممالک کے قدیم پہاڑی لوگ گیت گانے لگے اور سازوں کے ساتھ پر رقص کرنے لگے تب مخصوص ماحول میں اڑتے ہوئے آگ کے شعلے اور ان کے ساتھ رقص کرتے ہوئے لوگ اور اجنبی اور سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی اچھے لگنے والے لوک گیتوں نے ماحول کو جادوئی اثر میں لپیٹ لیا۔ اس محفل میں راقم الحروف نے وہاں موجود دوستوں کو بتایا کہ ہمارے ملک کے پہاڑی علاقوں کے لوک گیت بھی بہت خوبصورت ہیں۔ میری بات سن کر وہ سب کہنے لگے’’ تو پھر وہ گیت گاؤ۔ ہم ان گیتوں کے ترنم پر رقص کریں گے‘‘ میری آواز اچھی نہیں مگر میں پھر بھی وہ گیت گاتا جو گیت میں نے چترال اور کشمیر اور گلگت بلتستان میں سنے ہیں مگر وہ گیت مجھے یاد نہیں تھے۔ بون فائر پارٹی میں شریک ہونے والوں کو راقم الحروف نے اپنے ملک کی خوبصورت ثقافت کے بارے میں بتایا اورا نہوں نے ان باتوں کو پسند بھی کیا مگر جو مزہ چینی کھانے میں آتا ہے وہ مزہ چینی کی باتیں کرنے میں کہاں؟کلچر کی بات بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جو بات گا کر سنائی جائے وہ بات بتانے میں ویسا لطف کہاں آتا ہے؟ رقص کی بات زبان سے کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ میں اس وقت بھی محسوس کر رہا ہوں کہ بون فائر پارٹی میں نیپالی گیتوں کے ترنم میں جو لطف تھا وہ لطف بیان کرنے کی قوت میرے قلم میں نہیں ہے۔ اس پارٹی میں موجود سب خوش تھے۔ وہ سب چہک رہے تھے۔ مہک رہے تھے۔ مگر ان سب لوگوں کے درمیاں ایک خوبصورت خاتون خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔اس خاتون کے چہرے پر بچوں جیسی معصوم سنجیدگی بکھری ہوئی تھی۔ اس کے لباس اور انداز سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کوئی آفیشل مہمان نہیں۔ اس کے چہرے کے نقوش اور اس کے انداز سے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ ہمالیہ کی وادیوں سے نہیں آئی۔ وہ اس بون پارٹی کے کونے میں خاموشی بیٹھی ہوئی تھی۔ پارٹی کے بعد جب سب ڈنر کر رہے تھے تب میں اپنی پلیٹ لیکر اس کے قریب گیا۔ اس کی پلیٹ میں تھوڑا سا سلاد تھا ۔ جب میں نے اسے ہیلو کہا تو اس نے بڑی عزت سے ہیلو کہا۔ اس کے لہجے سے محسوس ہو ا کہ وہ نہ انگلینڈ سے آئی ہے اور نہ امریکہ سے۔ اس نے اپنی گلابی انگریزی میں بتایا کہ وہ اسپین سے آئی ہے۔ اس کا نام صوفیہ تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ نام ہمارے ملک میں بہت عام ہے۔ یہ بات سن کر وہ حیران ہوئی۔ وہ ہر بات پر حیران ہونے والی خاتون تھی۔ (جاری ہے) صوفیہ نے اس رات مجھے بتایا کہ وہ سیاحت کی شوقین نہیں ہے۔ مگر وہ یہاں پر بدھ ازم کو سمجھنے کے لیے آئی ہے۔ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے بتانے کی کوشش کی کہ وہ بارسلونا کی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے اور بدھ مت پر پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ گفتگو کے دوران صوفیہ نے مجھ سے پوچھا کہ تم بدھ مت کے بارے میں کتنا جانتے ہو؟ میں نے اس سے کہا کہ’’ آپ سے بہت جان کر خوشی ہوگی‘‘ میں نے صوفیہ سے کہا کہ کل ہم لاسا کے اس بدھ مندر کو جا رہے ہیں جو ڈھائی ہزار برس پرانا ہے۔ کیا تب ہمارے ساتھ چلوگی؟ صوفیہ نے کہا ’’ضرور‘‘ بات چیت کے دوران صوفیہ کے ہاتھ میں وہی پلیٹ تھی جس میں تھوڑے سے چنے اور کھیرے کے چند ٹکڑے اور ڈبل روٹی کا ایک پیس پڑا ہوا تھا۔ میں سمجھ گیا مگر پھر میں نے پوچھا کہ’’ کیا تم گوشت اور مچھلی نہیں کھاتی؟‘‘ اس نے کہا ’’میں برسوں سے ویج ہوں‘‘ میں نے کہا کہ بدھ مت تو گوشت کھانے سے نہیں روکتا۔ اس نے مسکرا کہا ’’میں جانتی ہوں۔ مگر مجھے گوشت اچھا نہیں لگتا‘‘ میں نے بات چیت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’انڈہ بھی نہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’انڈہ بھی نہیں‘‘ یہ باتیں کرتے ہوئے ہم ڈائننگ ہال سے ذرا باہر نکل آئے۔ رات کی سرد ہوا میں تبت کے آسمان پر ستارے ٹھٹھر رہے تھے۔ زندگی بہت قریب اور بیحد دور محسوس ہو رہی تھی۔ (جاری)