پاکستان میں برپا سیاسی بحران اتنا پیچیدہ نہیں جتنی وہ طوالت اختیار کر گیا‘اگر سیاسی بحران دو سیاسی جماعتوں یا گروہوں کے درمیان ہوتا تو اب تک اس کا حل نکل آتا‘ اگر سیاسی گروہ خود حل نہ کر پاتے تو اسٹیبلشمنٹ بخوبی ثالث کا کردار ادا کر سکتی تھی، بدقسمتی سے موجودہ سیاسی بحران میں متحارب فریق دونوں سیاسی نہیں تھے‘ حکومت جس کی سربراہی عمران خان کر رہے تھے وہ فریق سیاسی تھا اور اس کے مقابلے میں بننے والا سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم پوری طرح ناکام ہو چکا تھا تب غیر ملکی مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک بااثر طبقہ بروئے کار آیا پی ڈی ایم اتحاد ان خفیہ طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر سامنے رکھی گئی ‘ یہ حکومت افغانستان میں حامد کرزئی یا اشرف غنی کی طرح کا چہرہ تھی۔پس پردہ جن کی ڈوریاں دوسرے ہاتھوں میں رہیں، عمران خاں کی حکومت ہٹانے میں پی ڈی ایم کی سیاسی قیادت کا کوئی کردار تھا نہ ہی اس اتحاد میں شامل جماعتیں اپنی خوشی یا آزادانہ مرضی سے اتحاد کا حصہ بنیں تحریک انصاف کے بانی اراکین اسمبلی کی خریداری کے لئے زرداری نوٹ تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ ڈالر مہیا کس نے کئے اس کا ذکر سننے میں کم ہی جاتا ہے حالانکہ اسے ہر کوئی جانتا تھا جن چوروں کی داڑھی میں تنکے تھے وہ دھول اڑاتے رہے۔پہلے سازش کو مداخلت کا نام دیا آخر میں اس سے بھی انکار کی کوشش مگر کسی نے مان کے نہیں دیا‘ بحران پیدا کرنے والے اپنا کردار ادا کر کے جا چکے‘ غیر ملکی اس کی تلافی کی کوششوں میں مصروف ہیں‘ کٹھ پتلی پی ڈی ایم حکومت کی وہی حالت ہے جو امریکی انخلا کے بعداشرف غنی اور شمالی اتحاد کی تھی۔ دسمبر 2021ء میں عمران حکومت کے خلاف سازش برسرزمین میں آئی‘ عمران خاں کو پہلے پہل اس کا اندازہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی تبدیلی کے وقت یوں ہوا کہ افغانستان سے امریکی اپنی فوج نکال لے گیا اور طالبان کا پورے افغانستان پر قبضہ ہو گیا‘ اب خطہ ایک نئے طرح کے خطرے اور نئی حقیقتوں سے دوچار ہونے والا تھا ‘ ایسے بحرانی دنوں میں عمران خاں ڈی جی آئی ایس آئی کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جنرل باجوہ بضد تھے، عمران خان نے ان کی بات مان لی لیکن یہ کہا کہ فی الوقت پہلے سربراہ کو مارچ تک اپنے عہدے پر کام کرنے دیا جائے‘جو کچھ منصوبہ ان کے ذہن میں تھا،اس تاخیر سے وہ کٹھائی میں پڑتا نظر آیا، تو ایک خفیہ چال چلی گئی’’کسی بھی‘‘تھری سٹار لیفٹیننٹ جنرل کو ’’فور سٹار جنرل‘‘ بننے کے لئے کور کمانڈ کرنا ضروری ہے‘ اس کے لیفٹیننٹ جنرل کو کم از کم چھ ماہ تک ’’کور ‘‘ کی کمانڈ کرنا ہوتی تھی‘جنرل باجوہ نے نہایت خاموشی سے قواعد میں تبدیلی کر کے اس مدت کو چھ ماہ سے بڑھا کر ایک سال کر دیا اور ڈائریکٹر جنرل سے جا کر کہا کہ عمران خاںتم پر بہت مہربان ہے یوں لگتا ہے تم اگلے آرمی چیف بن جائو گے لیکن آرمی چیف بننے کے لئے کور کی کمانڈ ضروری ہے اگر مارچ تک تمہیں ڈی جی آئی ایس آئی رکھا گیا تو فوج کا سربراہ بننے کے لئے تمہارے پاس مطلوبہ کور کمانڈ کی مدت پوری نہیں ہو سکے گی اور آپ کا نام اس فہرست میں نہیں آئے گا، جو فوج کی سربراہی کے لئے بنے گی‘ چنانچہ ڈی جی آئی ایس آئی خود چل کر عمران خاں کے پاس گئے اور انہیں اس مجبوری سے آگاہ کر کے آئی ایس آئی چھوڑنے کی اجازت حاصل کر لی۔عمران خان جنرل باجوہ کی یہ بات پہلے ہی مان چکے تھے کہ اگلا ڈی جی آئی ایس آئی کون ہو گا‘ ایک طرف جنرل فیض کو دلاسا دیا کہ اگر تم کور کمانڈ کرنے کی مدت پوری کرو گے تو وزیر اعظم عمران خان تمہی کو فوج کا سربراہ بنائیں گے‘ دوسری طرف مسلم لیگ نواز اور دوسری جماعتوں کو کہتے رہے کہ عمران خاں کے وزیر اعظم بننے میں آئی ایس آئی کا بڑا کردار ہے‘ اب وہی آئی ایس آئی سربراہ آئندہ کے لئے فوج کا سپہ سالار مقرر ہونے جا رہا ہے، اسی لئے کور کمانڈ کی مدت پوری کروانے کے لئے اسے عہدے سے ہٹا کر ’’کور کمانڈ‘‘ کے لئے بھیج دیا گیا ہے ‘اس کا بھانڈا خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ پہلے ہی پھوڑ چکے ہیں کہ ہم ایسے مشکل وقت میں حکومت میں آنے کی بجائے نئے انتخابات چاہتے تھے لیکن ہمیں بتایا گیا تھا کہ عمران خاں اپنی مرضی کا سپہ سالار مقرر کر کے‘ پہلے سینٹ میں اکثریت حاصل کرے گا پھر عام انتخابات کروا کے اگلی مدت بھی اپنے نام کر لے گا‘ اسی خدشے سے گھبرا کے ہم حکومت سنبھالنے پر آمادہ ہوئے تھے۔آئی ایس آئی کی سربراہی کو چارہ بنا کر پی ڈی ایم کو انتخابات کی بجائے سازش میں شمولیت پر راضی کر لیا تھا لیکن اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جنرل فیض حمید کا پہلے پہل ڈی جی کے عہدے پر مارچ تک برقرار رہنے پر آمادگی اور بعد میں اس عہدے سے دستبرداری کی بیقراری کی وجہ جاننے کے کوشش کی تو عمران خان پر انکشاف ہوا کہ فوج کے قواعد میں تبدیلی کر کے چھ ماہ کی مدت کو ایک سال تک بڑھا دیا گیا ہے اور یہ تبدیلی ابھی ابھی چند دن پہلے کی گئی ہے‘ یہ حقیقت جان لینے کے بعد ہی وہ بدمزدگی پیدا ہوئی جس کو آج تک ہمارے بعض نام نہاد دانشور‘ کالم نویس اور ٹی وی میزبان اپنے پروگراموں میں عمران خاں کی ’’بے جا‘‘ ہٹ دھرمی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا کرتے ہیں‘ بہرحال گزشتہ برس شروع ہونے والا اس ڈرامے میں ’’امریکہ شمولیت‘‘ اس کا محرک نہیں تھی بلکہ اس کا محرک اور اصل کردار پاکستان میں تھا امریکہ کو اس ڈرامے میں شامل کرنے کے لئے عمران خان کے دورہ روس کو چارے کے طور پر شامل کیا گیا‘ عمران خاں کا دورہ روس بہت پہلے سے طے شدہ تھا بطور خاص ہمارے دفاعی ادارے بدلتے عالمی منظر میں روس کے ساتھ تعلقات کو خاص اہمیت دے رہے تھے امریکی ہتھیاروں پر پابندیوں کے بعد ہمیں نہ صرف روسی ہتھیاروں کی ضرورت تھی بلکہ روس سے تیل‘ گیس‘ گندم سستے داموں ملنے کی امید کے ساتھ گیس پائپ لائن‘ سٹیل مل اور سی پیک میں روس کی شمولیت ہمارے لئے نفع بخش اور دورس نتائج کا باعث بننے والا تھا ۔بہتر مستقبل کے شاندار لمحات کو ایک سازش نے پاکستان کے لئے زحمت بنا دیا۔ہماری اڑان کے شاندار دنوں کو مایوسی‘ اور بدحالی میں بدل دینے والے ہاتھوں کو بہت دور تلاش کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہیں کہیں ہمارے آس پاس بلکہ ہماری گردنوں تک پہنچے ہوئے تھے‘وزارت خارجہ‘ آئی ایس آئی‘ دفاعی ادارے بشمول بری اور بحری اداروں کے‘ سابق سفراء اور وزارت خارجہ کے ماہرین سب سے وسیع پیمانے پر اور کئی ہفتوں تک مشاورت ہوتی رہی‘ سب کی رائے بلکہ اصرار تھا کہ روس کے ساتھ شروعات کے لئے اس تاریخی وقت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ان حالات میں یہ دورہ شروع ہوا‘ تب اسی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ایک بیان ایک تقریب میں دیا گیا‘ یہی بیان امریکہ کی شمولیت کو دعوت تھا۔