اگلے ماہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اقتدار میں دوسرا سال مکمل کرلے گی، لیکن جس تبدیلی کا انھوں نے وعدہ کیا تھا، جس کا خواب انھوں نے خود دیکھا اور قوم کو دکھلایا، اْس کی تعبیر کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ عمران خان کے مخالفین طعنوں کی صورت اْنھیں پرانے وعدے یاد دلا رہے ہیں – ایک کروڑ نئی نوکریاں دینے سے لے کر 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے وعدے۔ جو حمایتی اور خیرخواہ ہیں، ان میں سے اکثر اس لیے مایوس ہیں کہ سماجی، انتظامی اور سیاسی تبدیلی کے سفر کا بظاہر ابھی آغاز بھی نہیں ہوا۔ اسی لیے روایتی سیاسی اشرافیہ اور اس کے اتحادی اب دن و رات یہ دعوے کر رہے ہیں کہ عمران خان ناکام ہوچکے اور پرامید ہیں وہی پرانے دن لوٹ آئیں گے جن سے بیزار ہوکر بہت سے پاکستانیوں نے تحریک انصاف کو بطور تیسری اور متبادل قوت ووٹ دیا۔ دیکھا جائے تو مسائل اور اندرونی و بیرونی خطروں میں گھرے پاکستان کے لیے منظرنامہ حوصلہ شکن ہے ۔ خصوصاً ان افراد کے لیے جو ایسی تبدیلی کے خواہاں ہیں جو ملک کو سماجی و معاشی انصاف اور ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔ عمران خان کی ناکامی ان قوتوں کی کامیابی ہوگی جو جمہوریت کے نام پاکستان کو مورثی سیاست کی گرفت میں رکھنا چاہتی ہیں اور جن کا ماضی بدعنوانی، اقرابا پروری، اداروں کی تباہی، لوٹ کھسوٹ، بدانتظامی سے دغدار ہے۔ لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ صیح یا غلط، ایسے ہی بہت سے الزامات اگر براہ راست عمران خان کی ذات پر نہیں، تو ان کے اردگرد موجود افراد پر لگ رہے ہیں۔ یعنی کے تبدیلی کہ ہوا چلی پر مملکت خداد پاکستان میں کچھ تبدیل نہ ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت نہیں اور ایسا خواب دیکھنا غلط تھا؟ یقنناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنے، مضبوط وطاقتور اور جدید و ترقی یافتہ بننے کے لیے حکمران اشرافیہ کی طرف سے لادی جانے والی بدعنوانی، لوٹ کھوسٹ اور جمود کی بیڑیاں توڑنا ضروری ہے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان بظاہر اپنی تمام تر نیک نیتی کے باوجود عملی طور پر کیوں تبدیلی کے لیے ایسے اقدامات کرنے سے قاصر رہے جنہیں عام پاکستانی دیکھ اور محسوس کرسکے؟ جن تبدیلیوں کا عمران خان دعوی کررہے ہیں، بشمول ''احساس پروگرام'' یا بے گھر افراد کے لیے "پناہ گاہوں" کی تعمیر، وہ غریب دوست اقدامات تو ہیں، لیکن صدقہ و خیرات کے ذریعے سیاسی، سماجی اور انتظامی تبدیلی ممکن نہیں۔ اصل تبدیلی کے لیے آج کے مستحقین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ضروری ہے۔ تبدیلی کی لڑائی میں عمران خان کئی موضوعی اور معروضی مشکلات کا شکار ہیں۔ ان میں پہلی اور بڑی وجہ تو یہ کہ وہ انقلابی جماعت کے رہنماء نہیں جو بدعنوان نظام سے لڑ کر، اسے توڑ کر اقتدار میں آئے ہوں۔ عمران خان نے طویل سیاسی جدوجہد ضرور کی، ان قوتوں کو بھی للکارا جنہیں وہ ''اسٹیٹس کو" کی قوتیں کہتے ہیں، پر اقتدار میں آنے کے لیے وہ نظام کے اندر رہ کر کام کرنے پر راضامند ہوگئے، جو اپنی ساخت میں کسی بھی عوام دوست تبدیلی کی راہ میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اپنی ابتدائی انتخابی ناکامیوں کے بعد، 2018ء کے انتخابات میں عمران خان نے انہی روایتی سیاست دانوں پر بھروسہ کیا جن کے پاس آبائی یا محفوظ نشستیں ہیں اور جو تحریک انصاف میں شمولیت سے پہلے مختلف جماعتوں میں صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے۔ ان منتخب اراکین کا تعلق اْسی حکمران اشرافیہ سے ہے جو باقی دو بڑی جماعتوں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ یعنی کہ طبقاتی ساخت میں، عمران خان کی تحریک انصاف اور ملک کی دیگر بڑی جماعتوں میں فرق نہیں۔ ساری ہی جماعتیں جاگیرداروں، سرمایہ داروں، قبائلی سرداروں، گدا نشین پیروں اور علاقائی عمائدین پر تکیہ کرتی ہیں، سو تحریک انصاف بھی وہی کررہی ہے۔ اگر تحریک انصاف اور باقی جماعتوں میں کوئی فرق ہے تو وہ صرف ایک ۔عمران خان کا۔ پر اس شخصیت کی طاقت اور کچھ کر کے دکھانے کی بھی حدود ہیں۔ پارلیمانی نظام میں، جس میں حکومت اتحادیوں کے بل پر قائم ہو، عمران خان کتنے زیادہ چھکے، چوکے نہیں مار سکتے۔ یعنی کہ 2018ء کے انتخابات میں کمزور اکثریت سے آنا، عمران خان کی تبدیلی نہ لا پانے کی تیسری وجہ ہے۔ ہاں اگر تحریک انصاف دوتہائی نشستیں جیت جاتی، تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔ تبدیلی نا لاسکنے کی چوتھی وجہ یہ رہی کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کی پاکستان کو مسائل، خصوصاً معاشی بحران سے نکالنے کی ۔۔جس کا نئی حکومت کو ابتدا سے سامنا رہا۔۔۔بالکل تیاری نہ تھی۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ سے چند ماہ بعد ہی چھٹی ہوجانا اس کا واضح ثبوت ہے۔ بہت سے اہم محاذوں پر ٹیم کا کمزور ہونا آج بھی حکومت کے لیے بڑا موضوعی مسلہ ہے جس میں مزید پیچیدگی ایسے غیرمنتخب کاروباری افراد کی اہم عہدوں پر تعیناتی سے ہوگئی جس میں مفادات کا واضح ٹکراو ہے۔ جلدبازی میں کیے گئے فیصلوں اور بنا سوچے سمجھے دیئے گئے بیانات نے بھی حکومت کو بارہا غیرضروری تنازعوں میں اْلجھایا اور بعض اوقات پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ پانچویں وجہ یہ رہی کہ حکومت ابتدائی دنوں سے ہی ترجیحات کا صیح تعین نہ کرسکی ۔۔یعنی اہم اور غیر اہم میں فرق۔ حکومتی بیانیے کا ضرورت سے زیادہ زور کفایت شعاری پر رہا، بشمول بھینسوں اور پرانی گاڑیوں کی فروخت پر، جن کی بڑے منظرنامے میں معمولی حیثیت تھی۔ چھٹا مسلہ عمران خان کا بعض معاملات پر بے لچک رویہ ہے، جسے ان کے قریبی حلقے کردار کی مضبوطی اور لہر کی مخالف سمت تیرنے کی صلاحیت قرار دیتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کی موضوعی کمزوریاں اپنی جگہ، لیکن ان کے سامنے معروضی چیلنجز بھی کم معمولی نہیں جن میں منقسم پر مضبوط حزب اختلاف سرفہرست ہے، جسے کمزور احتسابی عمل نئی زندگی بخشتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہی نہیں، انہی 23 ماہ کے دورحکومت میں کئی غیرمتوقع مسائل ایسے سامنے آئے جنہوں نے عمران خان کا ''گیم پلان'' تہس نہس نہیں تو خراب ضرور کردیا۔ ان میں مسلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی، کرونا وائرس جیسی عالمی وبا کا نمودار ہونا اور اس کی انسانی و معاشی قیمت اور پھر ٹدی دل کا حملہ۔ یہ تمام مسائل وہ ہیں جو بڑی سے بڑی قیادت کے لیے امتحان ثابت ہوسکتے ہیں اور عمران خان کے لیے بھی ہیں۔ کیا یہاں سے اننگز سنبھالی جاسکتی ہے؟ یہ مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔ عمران خان آج بھی مقبول رہنماء ہیں اور تبدیلی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ کئی کمزوریوں، غلطیوں کے باوجود آج بھی سول اور فوج کے تعلقات میں بظاہر کوئی داراڑ نہیں۔ حکومتی ٹیم کمزور ضرور ہے، لیکن اسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اگر پہلے دوبرس ادھر ادھر جنگی بنیادوں پر آگ بجھانے میں نکل گئے، تو اقتدار میں تیسرے برس کا آغاز سمت اور ترجیحات درست کر کے ہو سکتا ہے۔ جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا پاکستان کو ہے، ان میں یہ ایک اور ناکام حکومت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تبدیلی کی جنگ جیتنا ضروری ہے۔