جب کسی معاشرے کی دہلیز پر زوال دستک دیتا ہے تووہاں سے اتفاق و برکت اٹھ جاتی ہے اور وہ معاشرہ جنون میں مبتلا ہوکرساری خوشیوںاور سکون کی دولت سے محروم کردیا جاتا ہے، یہی قانون قدرت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔جب معاشروں میں انصاف کی جگہ ظلم واستبداد اپنے پنجے گاڑ دے توایسے معاشرے کھوکھلے ہو جاتے ہیں ۔ان دنوں امریکا ،بھارت اور اسرائیل بھی اپنے احمقانہ تجربوں سے اسی بے کسی کی تصویر بنتے چلے جارہے ہیں۔طاقت کے نشے میں چور یہ ریاستیں اقوام عالم کی آوازدبا کر اپنے من مانے دستور نافذ کرنے کے پاگل پن میںبہت آگے نکل چکے ہیں۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں انہوں نے اپنی سیمابی طبیعت سے پوری دنیا کاامن دائو پر لگارکھاہے ۔ اس نے اپنے اسٹریٹیجک ساجھے دار بھارت اور بغل بچے اسرائیل کی ملی بھگت سے ایک سازش کے تحت دنیا میں مسلمانوں کی زندگی عذاب کرکے رکھ دی ہے۔گو کہ مسلمان اپنی موجود ہ کمزورحیثیت کے بڑی حد تک خودہی ذمہ دار ہیں ،لیکن موجودہ حالات میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کا وقت نہیں ہے بلکہ سرجوڑ کر بیٹھنے اور کچھ کر گزرنے کا وقت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلام دشمن قوتوں نے ایکا کرلیا ہے اورسازشیں اور دولت بروئے کالاکرمسلمان دنیا میں جہاں جہاں بھی موجود ہیں انہیں سکون کی زندگی ،معاشی خودکفالت اور مذہبی آزادی سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکی بالادستی کے اس دور میںپاکستان، ترکی اور ملیشیا اور ایران اسلام دشمنوں کے بطور خاص نشانے پر ہیں۔موجودہ دور میں ایران اور امریکا کے مابین کشیدگی بھی اسی نفرت کا ایک جزو ہے جو دنیا کی سپر پاور نے ہر غیرت مند مسلمان ریاستوں کے خلاف ایجنڈے کے طور پر اپنا رکھی ہے۔ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کی روحانی فوج القدس کے سپہ سالار اور دنیا بھر کی شیعہ آبادیوں کے مقبول ترین جنگجو کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں عراقی کمانڈر کے ہمراہ امریکی میزائل حملے میں شہادت نے اچانک خلیج میں ہیجان اور خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ امریکا کی اس ننگی جارحیت نے خطے میں ایک بار پھر خلیجی جنگ کے خدشات کو جنم دے دیا ہے جو پھیل کر عالمی جنگ کی شکل بھی اختیا کرسکتی ہے۔ ہم ایک عرصے سے عالمی منظر نامے پر نگاہ رکھنے والے اپنے سیاسی پنڈتوں سے سنتے چلے آ رہے تھے کہ تیسری عالمی جنگ کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے اوراس کا ہونا ٹھہرگیا ہے۔ اس جنگ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ایک تو یہ ایشیا سے چھڑے گی اورمیدان جنگ مسلمانوں کی سرزمین ہو گا، دوسرا یہ کہ اس تیسری عالمی جنگ کی نرسری خلیج عرب اور خلیج فارس کی وسعتوں میں تیار کی جا رہی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ جنگ عظیم سوم کے خد و خال پر دماغ اور پیسہ خرچ کرنے والے پہلی دو عالمی جنگوں کے برعکس اس بار اپنی اپنی زمینوں اور آبادیوں کو بم اور بارود کی بو اور تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی ریاستوں کو میدان جنگ بنائینگے۔ جس کا آغاز ہو بھی چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس باربھارت ، امریکا اور اسرائیل کے جدید اور حساس ترین ہتھیاروں کے تجربے اسلامی سرزمین پراور مسلمانوں پرہونگے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفاق پیدا کرکے باہم برسرپیکار کر دیا جائیگاجس کے بعد انہیں تہہ تیغ کرناآسان ہو جائے گا۔ یوں اس جنگ کے لئے مسلمانوں کے خطے میں اندھی طاقت اور بربریت کے ایسے ایسے مظاہرے کئے جائیں گے جس کاہمیں اندازہ ہی نہیں ہے ۔امکان ہے کہ اس خوف ناک جنگ کی چنگاری اسلامی فکری تضادات کے وجود سے بھڑکائی جائے گی۔اس تیسری عالمی جنگ عظیم میں خلیج عرب، فارس اور برصغیر یہود و نصاری کے نشانے پر ہوں گے۔یہ جنگ کئی جہتوں سے لڑی جائے گی، ایک جہت تو مسلمانوں کا شیعہ سنی بنیادوں پر مد مقابل ہوجانا ہے۔ فرقہ واریت کی بنیادوں پر یہ لڑائی پہلے ہی عالم اسلام میں کسی نہ کسی صورت میں اور کسی نہ کسی سطح پر لڑی ہی جا رہی ہے۔فرقہ وارانہ خلیج اسلامی ملکوں کے مابین نفرتوں اور عداوتوں کی جو آگ پہلے ہی سے جل رہی ہے یہ بڑھتی بڑھتی امریکا، اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے سبب بقول اقبال سرکار کے ’’نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر‘‘سب کچھ جلا کر خاکستر کر دے گی اور ہم اپنے ملبوں پر کھڑے ہو کر اپنے لٹ جانے کی کہانیاںسنا نے کے قابل بھی نہیں ہوں گے لیکن ایسے اندھے اور بہرے موسم میں ہماری فریادیں اور نوحے سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ہماری چیخیںہمارے سینوں میں ہی دفن ہوکر رہ جائیں گی۔مقبوضہ کشمیر زنجیروں میں جکڑا کراہ رہا ہے ،مسلمانوں کے سروں پر تیسری جنگ عظیم کے سائے دن بہ دن گہرے ہوتے اور قریب آتے جا رہے ہیں اور ہم آپس کی عداوت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔سزائوں کی تہمتوں میں جکڑی مسلم لیگ ن ہو کہ ڈھیل اور ڈیل کے تمغوںسے لیس پیپلز پارٹی، سب نے بلی کو دیکھ کر آّنکھیںموندرکھی ہیں۔ملک میںپاک فوج ایک منظم ادارہ ہے لیکن اسے بھی موجودہ حکومت نے متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کشمیر اور بھارت کا مسلمان اٹھ کھڑا ہوا ہے لیکن ہماری صفوں میں وہی نفاق پروان چڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ہم نہ پہلے ایک تھے اور نہ اب کوئی سبیل بنتی دکھائی دے رہی ہے ۔ہماری لغزشیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتیںاور بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ جہاں تک ہماری تبدیلی سرکار کا تعلق ہے تو اس کے دن دعووں اور وعدوں میں اور راتیں حریم شاہ کے جلووں میںگزرجاتی ہیں۔ ہماری سیاسی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کچھ سیاستدان تو وہ ہیں جو ترمیم کے صلے میں اپنی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں اور کچھ وہ ہیں کہ جنہوں نے اپنا گریبان حریم شاہ کے نازک ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ لگتا ہے ساری تبدیلی سرکار ٹک ٹاک کے جلووں میں جکڑی ہوئی ہے۔ بغداد میں امریکی میزائلوں کی زد میں آ کر ایرانی اور عراقی کمانڈر شہید کر دئیے گئے تو مسلم امہ کے ردعمل سے بچنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ نے دنیا کے کئی ممالک کی منتخب حکومتوںکے اعلی نمائندوں یا وزرائے خارجہ سے بات چیت کرکے معاملہ سلجھانے کی ترغیب دی لیکن پاکستان کے منتخب نمائندوں سے بات کرنا تک گوارانہیں کیا گیا۔اس بھیانک عالمی منظر نامے میںہماری تبدیلی سرکارکہاں کھڑی ہے ،بس یہی آپ سے عرض کرنا تھا۔