جبر کی بنیاد پر کسی کو مسلمان بنانے کی تو شریعت میںہر گز اجازت نہیں اور جبر کی بنیاد پر پھر کسی سے شادی کر لینا تو ایک ایسا ظلم ہے جس کا شریعت میں تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔چنانچہ اس عمل کی ہر گز تائید نہیں کی جا سکتی لیکن معاملہ یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے جو قانون سازی متعارف کرائی جا رہی ہے اس کی تائید کرنا بھی ممکن نہیں۔یہ قانون نہیں ، نقص فہم کا دیوان ہے۔ اس قانون میں جبر اور زبردستی کا پیمانہ عمرکو قرار دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی ایسا فرد مسلمان ہوتا ہے جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے تو قانون یہی تصور کرے گا کہ اس شخص کو جبراً مسلمان کیا گیا ہے۔ جبر اور زبردستی کا تعلق واقعاتی شہادتوں سے ہوتا ہے اور اسے محض عمر سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ہاں اتنا اہتمام ضرور کیا جا سکتا تھا کہ اگر کوئی نا بالغ مسلمان ہوتاہے تو اس کی بلوغت تک اس کا نکاح نہیں ہو سکتا لیکن کسی کے مسلمان ہونے کے دعوے کو ہی محض اس بنیاد پر باطل قرار دے دینا کہ وہ ابھی اٹھارہ سال سے کم ہے ناقابل فہم ہے۔ اس ضمن میں تین سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ پہلا سوال یہ کہ کیا تبدیلی مذہب میں عمر کو جبر کا پیمانہ بنانا حتمی طور پر درست اور قطعی ہو گا یا بعض صورتوں میں حقائق اس کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کیا یہ اس فرد کی شخصی آزادیوں سے تو متصادم نہیں ہو گا ؟ تیسرا یہ کہ کیا یہ پابندی سنت نبوی ﷺ میں طے کردہ اصولوں سے متصام ہے یا اس کے مطابق ہے؟ قانون کا حسن یہ ہوتا ہے کہ وہ مفروضوں کی بنیاد پر کھڑا نہیں ہوتا وہ واقعات کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔جب عمر کی بنیاد پر جبر کا مفروضہ قانون بنا دیا جائے تو کیا اس سے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ فرض کریں ایک بچہ کسی دوسرے مذہب کی کسی بات سے متاثر ہو کر مذہب بدلنا چاہتا ہے۔اب کم سنی کی وجہ سے اس کا یہ دعوی تسلیم نہ کرنا تو ایک الگ بات ہے لیکن یہاں اس شخص کے خلاف کارروائی بھی ہو گی جس سے متاثر ہو کر وہ بچہ مذہب بدل رہا ہو۔ جیسے میں نے عرض کی کہ جبر کی صورت میں تو جبر کرنے والے کو نشانہ عبرت بنا دینا چاہیے لیکن یہاں تو جبر کے بغیر بھی لوگوں پر تعزیر نافذ ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ کیسی قانون سازی ہے؟ تاہم اگر عمر ہی کو جبر اور زبردستی کا پیمانہ بنایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اگر اٹھارہ سال سے زیادہ کا کوئی فرد تبدیلی مذہب کی بات کرتا ہے تو جبر کے شواہد نہ ہونے کی صورت میں اسے رضاکارانہ فعل سمجھا جائے گا۔لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔یہان قانون چند مراحل کی بات کرتا ہے۔مجوزہ قانون( دفعہ 11 ) میں یہ کہتا ہے کہ اگر ایک عاقل بالغ شخص مذہب بدل لیتا ہے تو اس تبدیلی مذہب کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ بھلے اس پر دبائو یا جبر کا کوئی ثبوت ہو یا نہ ہو۔ اس صورت میں معاملہ عدالت میں جائے گا اور عدالت یہ تعین نہیں کرے گی کہ جبر ہوا ہے یا نہیں ۔ بلکہ عدالت اس بندے کو اکیس دن کا وقت دے گی کہ وہ آزادانہ رائے پر پہنچ سکے اور غوروفکر کرے۔اس دوران اسے تقابل ادیان کا موقع بھی دیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ عدالت کے سامنے الزام تو جبر کا لگا تھا۔ اب عدالت نے فیصلہ تو یہ کرنا تھا کہ جبر ہوا ہے یا نہیں۔لیکن قانون کہہ رہا ہے کہ جبر اور زبردستی کے الزام پر کوئی کارروائی کرنے اور سچ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عدالت کو یہ زمہ داری دے دی گئی ہے کہ وہ لوگوںکوتقابل ادیان کرائے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ عدالت کا وظیفہ ہے؟ عدالت کا کام تو ایسے الزام کی صورت میں یہ تھا کہ تحقیقات کراتی اور چند دنوں میں کراتی اور اگر جبر ثابت ہو جاتا تو جبر کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دیتی۔ اگلا پہلو اس سے بھی قابل غور ہے۔ تقابل ادیان کے اکیس دنوں پر محیط مطالعے کے بعد اگر وہ شخص کہہ دیتا ہے کہ میں سابق مذہب پر لوٹ رہا ہوں تو قانون یہ کہہ رہا ہے کہ اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ جبر ہوا اور جو لوگ اس کی تبدیلی مذہب کا باعث بنے انہیں سزادی جائے گی۔آدمی یہ نہیں کہ رہا کہ مجھ پر جبر ہوا بلکہ وہ یہ کہہ رہا ہے کہ تقابل ادیان کے اکیس دنوں کی مشق کے بعد میں واپس اپنے پہلے دین پر لوٹ رہا ہوں۔یہ تو ایک علمی مشق تھی۔ اس میں جبر اور سزا کو لے آنا کیا ایک علمی رویہ ہے۔ یعنی ایک آدمی دلیل پر مذہب چھوڑتا ہے اور اکیس دنوں کے مطالعے کے بعد دلیل ہی اسے واپس لے جاتی ہے تو اس علمی مشق میں سز ا اور جبر کہاں سے آگئے؟ اگر وہ اپنے مطالعے کی بنیاد پر ہی مذہب بدل رہا ہو اور اس کا اکیس دنوں کا مزید مطالعہ اسے اس فیصلے سے روک لے تو دوسرے مذہب کے مبلغین کو اتنی سخت سزا دینے کا کیا جوازہے؟ اور فرض کریں اس مطالعے کے بعد بھی وہ اپنی رائے پر قائم رہتا ہے تو کیا فریق مخالف کو بھی پھر سزا سنائی جائے گی؟ جبر کا تعلق تو انسانی رویوں سے ہے اور جبر کا مظاہرہ تو کسی بھی فریق کی جانب سے ہو سکتا ہے۔قانون جبر کے تعین کو یک رخے انداز سے کیسے دیکھ سکتا ہے۔یہ کیسے طے کر لیا گیا کہ جبرصرف ایک طرف سے ہی ہو سکتا ہے اور کسی کو تبدیلی مذہب سے روکنے کے لیے کوئی جبر نہیں ہو سکتا؟ قانون یک طرفہ مفروضوں پر نہیں بنتا، وہ صرف اصول بیان کرتا ہے اور اس میں ہر امکان کے لیے گنجائش موجود رہتی ہے۔