فرد کبھی ناگزیر نہیں ہوتا۔ چاہے اس کی شخصیت کتنی ہی اور کیسی ہی بلند پایہ ہو۔ نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی فطرت خلا کو پُر کردیتی ہے۔ بھٹو صاحب جن دنوں عوامی مقبولیت کے معراج پر تھے‘ لاہور کے ایک سوشل میگزین نے سوال اٹھایا تھا کہ ’’بھٹو نہیں تو کون؟‘‘ اور یہ سچ ہے کہ ان دنوں ملک میں کوئی بھی سیاست دان ایسا نہ تھا جو بھٹو کا نعم البدل ثابت ہوتا۔ آج پل کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ پلٹ کر دیکھیں تو یہ سوال ہی احمقانہ لگتا ہے۔ یہ وقت ہے جو بلند کو پست اور کامیاب کو ناکام کر دکھاتا ہے۔ اللہ بس باقی ہوس۔ یہ خاکسار ایک لمبی چھٹی کے بعد قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استوار کر رہا ہے تو اس احساس کے ساتھ کہ کبھی کبھی خاموشی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ آپ کے‘ ہمارے یا کسی کے لکھے سے بھی کوئی تبدیلی یا انقلاب نہیں آتا۔ فقط اتنی سی بات کہ ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔‘‘ جو لوگ منصب حکمرانی پہ فائز ہوتے ہیں‘ ان کے پاس نصیحت یا نیک و بد کی جاں گداز تفصیل سننے کا وقت ہی کہاں ہوتا ہے۔ لکھنے والا لکھتے لکھتے آخر آخر کو اسی نتیجے پر پہنچتا ہے‘ کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں۔ اور اگر کوئی فائدہ‘ کوئی بھلائی لکھے سے ہوتی بھی ہے تو اس کا پتہ نشان ہی کب ملتا ہے۔ انقلاب یکلخت آتا ہے اور تخت و تاراج کر کے آتا ہے۔ تبدیلی آہستہ رو ہوتی ہے۔ دبے پائوں آتی ہے۔ کپتان عمران خان کی حکومت کو آئے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں مگر ایک موثر طبقہ نتیجے کا طلب گار ہے۔ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آنے والی حکومت وہ سب کچھ کر رہی ہے جو پچھلی حکومتیں کرتی آئی ہیں۔ یہاں تک کہ یہ عذر بھی کہ جو مسائل ورثے میں ملے ہیں‘ انہیں جادوئی چھڑی ہی سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور ایسی چھڑی کب کسی نومنتخب حکومت کو ملتی ہے۔ دیکھنے کا قرینہ یہ ہے کہ حکومت کی سمت یا ڈائریکشن درست ہے یا نہیں۔ اس کی ترجیحات مسائل کو حل کرنے کی ٹھیک ہیں اور وہ عوام کے لیے دردمندانہ جذبات رکھتی ہے تو پھر ہمیں صبر و سکون کے ساتھ اسے وقت دینا چاہیے اور اچھے دنوں کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔ ہم عجلت پسند لوگ ہیں۔ بہت جلد اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ تخریب کا عمل آسان جبکہ تعمیر وقت طلب ہوتی ہے۔ پورے ملک میں جو ہاہا کار مچی ہے اس دھماچوکڑی میں جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایسے ایسے واقعات جرائم کے سامنے آتے جاتے ہیں کہ عقل حیران ہے کہ یااللہ! کب کسی مملکت میں ایسا ہوتا ہے۔ غریب غربا کے اکائونٹ سے اربوں روپے کی منتقلی اور اس جیسے ششدر و سراسیمہ کردینے والے واقعات۔ اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ساٹھ ستر برسوں میں کتنا گند معاشرے میں جمع ہو چکا ہے۔ پس پردہ کسب دولت کے لیے کیسا ناپاک اور ہوش ربا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ جب بھی گند صاف کرنے کے لیے جھاڑو اٹھایا جائے گا‘ بدبو تو پھیلے گی اور فضا میں گردوغبار تو اڑیں گے۔ تو تبدیلی کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ زیرزمین حقائق سطح زمین پر آ جائیں اور پھر اصلاح احوال کی دور رس تدبیر کی جائے۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو ختم کرکے تبدیلی لانا آسان نہیں اور نہ قوم کی راتوں رات کایا کلپ ہو سکتی ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ سیاسی اور معاشی نہیں۔ اصل مسئلہ اخلاقی ہے۔ اخلاق کی درستگی ہی سے زندگی کے سارے شعبوں کی اصلاح و درستگی ممکن و منحصر ہے اور یہ کام حکومت کا نہیں‘ علمائے کرام‘ مبلغین و مصلحین اخلاق ‘ اساتذہ کرام اور والدین کا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری نظام ہائے حکومت کو عدل و اخلاق کے ماتحت کرنا ہے۔ عمال حکومت پر قانون کی عمل داری قائم کرنا ہے۔ بدعنوانی اور بدمعاملگی کا خاتمہ کرنا ہے۔ لیکن جملہ معاشرے کو پندو نصائح سے اخلاقی اعتبار سے درست کرنا‘ انہیں نیک و بد میں تمیز کرنا اور صاف ستھری پاکیزہ زندگی سے جوڑنا اہل دانش اور علماء و اساتذہ و والدین کی ذمہ داری ہے۔ ہم لوگ ستم ظریفی سے یہ سمجھتے ہیں اچھی حکومت وہی ہے جو قوم کے سارے دلدر دور کردے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے۔ ملک و قوم کو درپیش سارے بحرانوں سے نکال باہر کرے اورخود قوم کو اور خود قوم کو اور افراد معاشرہ کو کچھ نہ کرنا پڑے۔ اس خام خیالی سے جب تک ہم خود کو نہیں نکالیں اور تعمیر معاشرہ میں اپنا حصہ پرجوش ہو کر نہیں ڈالیں گے‘ نئے پاکستان کا خواب ‘ خواب ہی رہے گا۔ نئی حکومت جن وعدوں اور دعوئوں کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے اس کی بنا پر ذمہ داریوں کا عظیم بوجھ اس کے کندھوں پر ہے۔ اس حکومت کو کامیابی سے ہمکنار کرنا صرف وزیر اعظم اور اس کی ٹیم پر ہی نہیں‘ ان تمام ووٹروں پر بھی ہے جنہوں نے تبدیلی کے نام پر اس حکومت کو منتخب کیا ہے۔ فرد کی تبدیلی ہی سے معاشرہ تبدیل ہوتا ہے۔ اور یہ تبدیلی اپنے آپ کو بدلنے سے مشروط ہے اور یہ دو ایک دن کا نہیں‘ برسوں کا کام ہے۔ خدا وہ دن لائے جب افراد معاشرہ میں اپنی عادات و اطوار کو بدلنے کا شعور پیدا ہو۔ محض بیان بازی اور لچھے دار باتوں سے کبھی کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ تحریک انصاف کو کامیابی بیشتر نوجوان نسل کی تائید و حمایت سے ملی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے آپ کو بدل سکتا ہے۔ چالیس سال بعد کسی فرد کے تبدیل ہونے کی توقع کرنا بے سود ہے۔البتہ نوجوانوں سے یہ امید وابستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح سے معاشرے کی صورت گری کر سکتے ہیں۔ لیکن نوجوانوں کو اپنی ذات اور معاشرے کی تعمیر کی جانب کون متوجہ کرے۔ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس پر غورو خوض کی ضرورت ہے۔! خصوصاً ایسی صورت میں کہ مراعات یافتہ طبقے تبدیلی کی راہ میں مزاحم بھی ہوں۔ اگر نئی حکومت شاہ خرچیوں کو چھوڑ کر سادگی اختیار کرتی ہے اور اپنے طرز عمل سے یہ دکھاتی ہے کہ تبدیلی کو اوپر سے ہی آنا چاہیے اور تعیش پسندی اور سرکاری خزانے کو ذاتی خزانہ سمجھنے کا رویہ ترک کردیا گیا ہے تو ثبوت ہے اس بات کا کہ نئی حکومت کا سمت سفر ٹھیک ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر تنقید کی بوچھاڑ کرنا بہت سہل ہے لیکن عملاً ایک گلے سڑے نظام کو ایک صالح اور تعمیری نظام میں بدلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خصوصاً ان کے لیے جنہیں حکومت میں آنے اور اسے چلانے کا تجربہ پہلی بار ہورہا ہے۔ ہمیں انتظار کرنا اور نومنتخب حکومت کو موقع دینا چاہیے۔ خارجی حقائق ٹھوس اور بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کا ادراک کرنا اور انہیں بدلنے کے لیے وقتی طور پر سمجھوتہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اسے ’’یوٹرن‘‘ قرار دینے کے بجائے مان لینا چاہیے کہ اچھی سے اچھی حکومت بھی راتوں رات یا چشم زدن میں سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نومنتخب حکومت کے عمال کو تنقید اور اعتراض پر برافروختہ ہونے اور خرابی تنقید و احتساب کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے سنجیدگی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی وزیر کو بیان دینے اور الزام تراشی کرتے ہوئے نہیں بھولنا چاہیے کہ اب وہ کسی پارٹی کا عہدے دار نہیں حکومت کا کل پرزہ ہے اور حکومت سب کی ہوتی ہے۔ پارٹی اور حکومت میں فرق برقرار رکھنا ضروری ہے۔ قائداعظم نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پارٹی کی صدارت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ کپتان کو بھی یہی کرنا چاہیے۔ پارٹی کا عہدہ اور حکومت کا عہدہ ایک ذات میں جمع ہو جائیں تو اس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر فوری طور پر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو وزراء کرام کو بیان بازی کرتے ہوئے اپنے حکومتی عہدے کے وقار کا پاس لحاظ ضرور کرنا چاہیے۔