کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی حوصلہ افزائی کسی نے نہیں کی بلکہ ہر روز اسکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔حکومت کو کورونا سے جاںبحق ہونے والے ہر شخص کی موت کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ حکومت کے تمام تر اقدامات جس کی ستائش بین الاقوامی سطح پر بحر حال ہوتی چلی آ رہی ہے انکو بھی اپوزیشن نے خصوصاً تنقید کا نشانہ بنا ئے رکھا۔ رفتہ رفتہ حکومتی اقدامات اور وزیر اعظم عمران خان کااس صورتحال سے نپٹنے کا طریقہ ثمر آور ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بلکہ غیر ملکی حکومتوں کی طرف سے ایک بار پھرپاکستان کی کوششوں کی تعریف ہو رہی ہے ۔ اپوزیشن عمران خان کو کورونا کی پوری وباء کے دوران کنفیوژ کہتی چلی آ رہی ہے لیکن معاملہ اسکے بر عکس ہے۔اپوزیشن خود ایسے کنفیوژن کا شکار ہے جس میں انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کورونا پر حکومت کے لتے لے کہ کرپشن کے خلاف نیب کی کارروائیوں پر نیب نیازی گٹھ جوڑ کو ثابت کرے۔ آل پارٹیز کانفرنس کرے کہ ملٹی پارٹی کانفرنس کرے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے کہ پہلے اپنی پارلیمانی قوت کا اندازہ لگانے کے لئے سپیکر کے خلاف تحریک پیش کرے۔اسی طرح سے پارلیمنٹ کے اندر سے کچھ کیا جائے یا سڑکوں پر احتجاج ہو۔ سڑکوں پر احتجاج کے سلسلہ میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی(ف) ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ سیاسی منظر نامے پر ایک قضیہ ختم ہوتا ہے، کوئی نیا جنم لے لیتا ہے۔ابھی بجٹ پر حکومتی اتحادیوں اور خود پی ٹی آئی کے لوٹا نما ارکان نے جو ہر انتخاب میں اشارے کے منتظر ہوتے ہیں کہ کس پارٹی کا پلڑا بھاری ہے اور اس میں شامل ہو کر انتخاب لڑا جائے، نے جو کردار ادا کیا ہے حکومت نے اس صورتحال پر قابو تو پا لیا ہے لیکن ایسے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔میرے خیال میں اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔بجٹ کے موقع پر اتحادیوں نے جانا کہ حکومت کمزور پچ پر ہے اس لئے اس پر دبائو بڑھا کربہت سی ایسی رعائیتیں حاصل کی جا سکتی ہیں جو پہلے ممکن نہیں تھا۔ مسلم لیگ(ق)، ایم کیو ایم، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، اور بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) جب حکومت کے ساتھ شامل ہوئی تھیںتو تحریری معاہدوں کے ذریعے اپنے مطالبات کی تکمیل کی یقین دہانی لی تھی۔بی این پی (مینگل) تو گاہے بگاہے اپنے مطالبات کے حق میں پر زور طریقے سے آواز اٹھاتی رہی۔ اتحادیوں نے گلے شکوے ضرور جاری رکھے لیکن بی این پی (مینگل)اس قدر برہمی کا اظہار کبھی نہیں کیا جیسے اب کیا جا رہا ہے بلکہ انہوں نے علیحدگی اختیار کر کے اپوزیشن سے پینگیں بڑھائی ہیں لیکن وہ جلد اپنے اصل کی طرف رجوع کرینگے۔ با خبر لوگ کہتے ہیں کہ انکی کوئی بین الاقوامی مجبوری ہے اس لئے سال میں ایک بار انہیں حکومت کے خلاف کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا ہوتا ہے۔ جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کا تعلق ہے تو وہ جس شخصیت کے مالک ہیں اور جتنی صراحت سے وہ اپنے مشن اور نظریے کو بیان کرتے رہے ہیں اور اس پر ثابت قدمی دکھائی ہے مجھے ذرا سا بھی شک نہیں ہے کہ وہ کنفیوژ ہیں۔ انکی بے بسی البتہ آئے دن نظر آتی ہے کیونکہ جس طبقے کی ذمہ داری انہوں نے لی ہے اسکو اس حالت میں رہنے کی ہماری اشرافیہ نے ایسی عادت ڈالی ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے لڑنا تو دور کی بات ہے آواز اٹھانا بھی گستاخی تصور کرتے ہیں۔عمران خان کے لئے بطور وزیر اعظم یہ دوسری مشکل ہے کہ جس طبقے کیلئے وہ لڑرہے ہیں وہ بھی اس لڑائی میں انکے ساتھ نہیں ہے یا انکی معاملات کے ادراک کی صورت ایسی نہیں ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ وزیر اعظم انکے لئے جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان میں اشرافیہ کو چیلنج کرنے والے کسی اچھے انجام سے دوچار نہیں ہوئے۔وزیر اعظم کیلئے اس وقت اپنی اصلی والی ٹیم کو جمع کرنا اور نچلے طبقے کے ساتھ کھڑے رہنا ہی اس ملک سے مافیائی گٹھ جوڑ ختم کر سکتا ہے۔ بے بسی کی تصویر بنے رہنے سے کام نہیں چلے گا۔ایک جھٹکا وہ اس نظام کو دے چکے ہیں بس ایک اور دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تحریر کیا تھا ’’عمران خان کی سیاسی مشکلات کی وجہ اپنی حکومت کے ابتدائی اٹھارہ ماہ میں کرپشن کے خاتمے کے نام پر فل سپیڈ میںحکومتی گاڑی کو بھگانا بنا ہے۔ انہوں نے کسی سپیڈ بریکر، کھڈے اور کھائی کی پرواہ کئے بغیر اسے بگٹٹ بھگایا ہے اور بالآخر یہ گاڑی، مفاہمت کہہ لیں، مجبوری یا پھر معاملہ فہمی کے قد آور درخت سے ٹکرا کر رک گئی ہے۔ گاڑی کے رکنے پر وزیر اعظم کو احساس ہوا ہے کہ گاڑی کو جو نقصان ہوا سو ہوا انکے ساتھ بیٹھی سواریوں کا انجر پنجر بھی ہل کر رہ گیا ہے۔ اس صورتحال میں انکی چیخ و پکار فطری بات ہے۔اسکو اپنے خلاف سازش سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گا۔اسکے لئے ٹھنڈے دل و دماغ سے صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے‘‘ ۔ میری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس ساری صورتحال پر نظر ثانی کی ہے جس میں احتساب کے عمل کے رکنے کا کوئی امکان نہیں بلکہ یہ زیادہ شدت سے جاری رہے گا لیکن جہاں تک کار حکومت کا سوال ہے تو اس میں ا ب بہت بہتری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ سست ، کاہل اور غیر ذمہ دار لوگوں کی گنجائش ختم کی جا رہی ہے۔ ایسے چکر باز جو اپنے مفادات کیلئے حکومت کی گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچ کربیٹھے تھے انکی نشاندہی کر لی گئی ہے۔ اہم فیصلے ہونے جا رہے ہیں جس میں بہت سی گردنیں اڑنے والی ہیں ۔ایک مضبوط ٹیم دلجمعی اور طاقت سے کام کرے گی۔گزشتہ سترہ ماہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے بہت کام ہوا ہے۔اب اس میں مزید بہتری تیزی سے ہوگی۔چین کیساتھ سی پیک ایک نئے جذبے سے شروع ہو چکا ہے۔ اسکو روکنے کے لئے گزشتہ دو سال سے اگرچہ امریکہ کی طرف سے ایلس ویلز سے لیکر زلمے خلیل زاد نے حالیہ دورہء پاکستان میں ہر قسم کی آفر کی ، شنید ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی آفر بھی ہے لیکن پاکستان کی قیادت نے اس معاملے پر کسی قسم کا سودا نہیں کیااور نہ کوئی دبائو قبول کیا ہے۔ ہم تیزی سے تبدیلی کی طرف بڑھ رہے ہیں، امید ہے کہ بہت جلد اسکے خد و خال واضح ہو جائیں گے۔تبدیلی ہو گی لیکن مائنس ون کا کوئی چانس نہیں۔