آج سے ٹھیک چالیس سال قبل جب میں منشیات کے خلاف کام کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ’’یو این ایف ڈی اے سی‘‘ (United Nations Fund for Drug Abuse Control) کی تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے بلوچستان کے دور دراز ڈویژن، مکران کے صدر مقام تربت پہنچا تو یہ ایک خاموش اور چھوٹا سا قصبہ لگتا تھا۔ ایک بہت بڑی برساتی ندی ـ’’کیچ کور‘‘ کے کنارے آباد شہر، جس میں واقعی تربت جیسا سکوت اور خاموشی تھی۔’’ کیچ ‘‘دراصل تربت کاقدیم نام ہے، لیکن ہم نے بچپن سے اس کی شہرت سسی پنوں کی لازوال داستان میں پنوں کے شہر کی حیثیت سے سنی تھی۔اسی ندی کے کنارے مٹی سے بنا پنوں کا قلعہ اسوقت تک موجود تھا، جہاں سے داستان کے مطابق خوبصورت اونٹ پر سوار پنوں نے سسی کے شہر کی جانب رختِ سفر باندھا تھا۔۔ کیسے کیسے گیت اور محاورے اس داستان نے جنم دیئے ہیں۔ ’’اونٹ والوں سے دوستی لگانا ہوتو دروازے اونچے رکھنے چاہیئں‘‘ جیسا کثیر المعانی محاورہ اسی داستان کی عطا ہے۔۔ تھل، ریگستان، بگولے، سسی کی گہری نیند۔ اس دور کے تربت میں یہی احساس ہوتا تھاجیسے وقت یہاں آکر تھم چکا ہے اور یہیں کہیں سے سسی یہ والا مصرعہ گاتی ہوئی نکلے گی، ’’بناں و نگالن پنوں دی میں کیچ نوں ویچن ونگاں جاں‘‘۔ میں پنوں کے نام کا آوازہ لگانے والی (ونگالن) بن کر اس کے شہر ’’کیچ‘‘ میں چوڑیاں بیچنے آئی ہوں۔ تربت کا سرکٹ ہاوس ایک چھوٹی سی عمارت تھی جس کے اردگرد کوئی دیوار نہ تھی۔ چاروں طرف دور تک پتھریلی اور ریتیلی زمین پھیلی ہوئی تھی۔ شہر میں صرف چند گھنٹوں کے لئے جنریٹر سے بجلی آتی تھی۔ سرکٹ ہاوس کے بوڑھے چوکیدار نے جو باورچی بھی تھا، اسی لئے ہماری چارپائیاں، سرکٹ ہاوس کے پورچ کے سامنے نسبتاً سخت اور پتھریلی کھلی زمین پر لگا دیں اور ایک قدیم میز کے ساتھ دو کرسیاں رکھ کر سفید میز پوش پر اس خوبصورتی اور ترتیب سے پلیٹیں اور چھری کانٹے سجائے کہ میرا جرمن ساتھی ہنس سپیل مین (Hans spielman) حیران رہ گیا۔ رات، چاندنی اور ستاروں کے درمیان یہ بوڑھا چوکیدار جو اعلیٰ افسروں کا باورچی رہ چکا تھا، اسکے پاس پرانے ڈپٹی کمشنر اور کمشنروں کے لاتعداد قصے تھے، جنہیں وہ بڑے فخر سے سنانے لگا۔قربت کی وجہ سے وہ ان کی ہر عادت و اطوار سے واقف اور راز دان بھی تھا۔ عامی آدمی تو اس بغیر دیوار والی عمارت کے سامنے ایک لمحے کو بھی کھڑے ہوکر نگاہ نہیں ڈالتے تھے کہ کہیں گستاخی میں پکڑے نہ جائیں۔اس نے بتایا کہ کیسے رات کے وقت پرانے ڈپٹی کمشنریا پھر کمشنر، اس بے آب و گیاہ علاقے میں، کہ جہاں کوئی انہیں دور دور تک دیکھ بھی نہیں رہا ہوتا تھا، باقاعدہ سیاہ رنگ کا ڈنر سوٹ پہنتے ،شاندار سفید قمیض پر ’’بو‘‘ لگاتے۔ میز پر سفید چادر اور نیپکن رکھے ہوتے اورپھر کسقدر اہتمام کے ساتھ وہ چھری، کانٹے اور چمچے کا استعمال کرتے ہوئے ڈنر کرتے۔ یہ کہانیاں بیان کرتے ہوئے وہ یہ منطق بھی بیان کرتا کہ دراصل آفیسر اگر عام لوگوں کی طرح بیٹھ کر کھانا کھانے لگیں تو ان کی عادتیں خراب ہوجاتیںہیں۔ پھر کوئی انہیں پہچانتا بھی نہیں کہ یہ آفیسر ہیں۔ وقت بدلا، بجلی آئی، چارپائیاں باہر سے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں منتقل ہوگئیں، گھروں میں بڑی بڑی ڈنر ٹیبل سج گئیں، گھوڑے سے قدیم جیپ اور پھر آرام دہ سواریاں آگئیں ۔جدید ماحول کا مکین بیوروکریٹ اب عوام سے مزید دور اور علیحدہ ہوتا چلا گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کی انا، خود پسندی اور نخوت صرف اپنے انگریز آقا کے عطاہ کردہ رہن سہن ، لہجے اور طرزِ بود و باش تک ہی محدودہوا کرتی تھی۔ وہ صرف اپنی بود و باش میں ہی الگ تھلگ نظر آنا چاہتا تھامگر اس کو علاقے کے مسائل کا مکمل ادراک ہوتا تھا اور وہ لوگوں سے مسلسل رابطے میں بھی رہتا۔ وہ ’’صاحب ‘‘بھی تھا لیکن صرف دکھائی دینے کی حد تک۔امنِ عامہ سے لے کر انصاف کی فراہمی اور عوامی فلاح و بہبود سے وہ ہرگزغافل نہیں ہوتاتھا۔ آپ برصغیر پاک و ہند کے کسی بھی دوردراز علاقے میں چلے جائیں اور وہاں پر کسی بوڑھی عمر والے سے پوچھیںتو آپ پر یہ راز ضرور کھلے گا کہ چند ہزار انگریز کئی کڑوڑ ہندوستانیوں پر کس طرح ایسی حکومت کر گئے کہ عام لوگ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ریلوے، ڈاکخانہ، سکول، ڈسپنسریاں، جانوروں کے ہسپتال، نہری نظام، عدالتی انصاف، یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ رات کو سوٹ پہن کر ڈنر کرنے والے افسران سے انگریز حکام امن و امان، ترقی، انصاف اورعوام کے لئے بہتر ماحول کی ضمانت طلب کرتے تھے اور انہی بنیادوں پر اس انگریز یا انگریز نما آفیسر کی ترقی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب ترقی کے معیار یکسر بدل چکے ہیں۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو، ضیا ء الحق، بھٹو کی بیٹی بے نظیر، ضیا ء الحق کا روحانی فرزندنوازشریف اور بھٹو کا داماد زرداری، یہ ایسے کردار ہیں جنہوں نے ان کالے انگریز بیوروکریٹس کو ذاتی وفاداریوں، بددیانتی اور دشمنوں سے انتقام جیسے مقاصدکی بنیاد پر ترقی اور اعلیٰ مناصب دینا شروع کیئے اور یوں افسران کے سامنے کامیابی کے صرف دومعیار رہ گئے، سیاسی آقاؤں کی خوشامداور ان کی کرپشن کے لیئے راستے بنانااور ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی اسی بددیانتی سے پرآسائش زندگی کا حصول اور مستقبل کیلئے لوٹ مار۔ یہی وجہ ہے کہ بیوروکریسی کو جانچنے ، پرکھنے اور ان کی ترقی اور پوسٹنگ کا پیمانہ صرف اور صرف وفاداری، خوشامد اورسیاسی آقاؤں کی انا کی تسکین تک محدود ہوکر رہ گیا۔ عمران خان کی ’’تبدیلی‘‘ کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ لیکن ان دو سالوں کے بعد محسوس ہوتاہے جیسے بیوروکریسی کی وہ تمام منفی خصوصیات جو بھٹو دور میں پیدا ہونا شروع ہوئیں پھر نوازشریف ، بے نظیراور زرداری کے دور میں مزید نکھر کر سامنے آئیںاور آج عمران خان صاحب کا سرکاری آفیسر بھی اسی راہ پر چلتے ،خوشامد، ذاتی انا اور غرور و تکبر کی علامت کے طور پر مزید کمال حاصل کر چکا ہے۔ چالیس سال کے بعد اسی تربت میں بیٹھنے والے کمشنر کو 20 نومبر2020ء کو عمران خان صاحب کے دورے کے دوران بدانتظامی پر چیف سیکرٹری نے جواب طلبی کی ایک چارج شیٹ جاری کی ہے۔ اس پر دس الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ الزامات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ خانصاحب کے ماتحت افسران نے غرور ونخوت اور تکبر و خود پسندی کا وہ سفر مکمل کر لیا ہے جو بھٹو دور میں شروع ہوا تھا۔ الزامات یوں ہیں۔ 1)۔ بریفنگ والے کمرے میں کوئی علیحدہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ نہیں تھا کہ جو خرابی کی صورت استعمال کیا جا سکے۔ 2)۔ کوئی مستند کمپیوٹر چلانے والا بھی موجود نہ تھا اچانک خرابی کو ٹھیک کر سکتاہو۔ 3)۔ صفائی کا عملہ کم تھا اور راستوں اور باتھ روم میں ’’مناسب‘‘ صفائی نہیں تھی۔ 4)۔ وزیراعظم (عمران خان) اور دیگر معزز مہمانوں کے لئے لنچ طشت (Patter) میں کھانا کم اور کمتر کوالٹی کا تھا، حالانکہ اس معاملے میں آپ کو واضح ہدایات مل چکی تھیں۔ 5)۔ وزیراعظم اور دیگر مہمانوں کو پیش کی جانے والی کولڈرنک مناسب طور پر ٹھنڈی نہیں تھیں۔ 6)۔ چیف سیکرٹری کی کرسی پر چٹ نہیں لگی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اسے پہلی صف کے آخری کونے میں جاکر بیٹھنا پڑا۔ 7)۔ سیکرٹری صاحبان کے لیئے سیٹوں پر نام کے کارڈ نہیں لگائے گئے تھے اور ہجوم کی وجہ سے وہ باہر کھڑے ہونے پر مجبور ہو گئے۔ 8)۔ ڈپٹی کمشنر تربت اور ایس ایس پی تربت وزیراعظم (عمران خان) کے بہت قریب گھوم رہے تھے اور ایس ایس پی تو بار بار وزیراعظم کو بات چیت (Chit chat)میں الجھا رہا تھا، یہ رویہ وزیر اعلیٰ اور دیگر وزیروں کی موجودگی میں انتہائی نامناسب ہے۔ 9)۔ ڈپٹی کمشنرخاص طور پرچیف سیکرٹری کو نظر انداز کر کے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ گھوم پھر رہا تھا (تصویر ساتھ لگائی گئی ہے) 10)۔ چیف سیکرٹری کی سیٹ پر اوّل تو مخصوص چٹ نہیں تھی اور سیٹوں کے معاملے میںکسی قسم کی سنیارٹی کا بھی دھیان نہیں رکھا گیا تھا۔ میری یادداشت اور نوکری کے 32سالوں کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی بیوروکریسی میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی چارج شیٹ ہے جو اب تک کسی بھی کمشنر کو جاری ہوئی ہے۔ لگتا ہے تبدیلی کا یہ سفر اب تیزی سے طے ہورہا ہے۔