بادشاہ اپنے عظیم الشان لشکر، بھرے ہوئے خزانے اور ریاست میں مثالی امن کے باوجود بسا اوقات کسی ذاتی دکھ کا شکار ہو کر سر راہ کسی درخت کی چھائوں میں ٹوٹی کھاٹ پر لیٹ جایا کرتے۔ کوئی اللہ والا وہاں سے گزرا۔ ایسے ہی ایک پریشان بادشاہ سے اس کا دکھ پوچھا۔ تیسرے قول پہ بادشاہ نے بتایا کہ رب نے سب کچھ دے رکھا ہے اولاد نرینہ نہیں۔ فقیر اسے اپنے تھیلے سے ایک آم نکال کر دیتا ہے کہ اپنی رانی کو کھلا دینا۔ بادشاہ محل میں پہنچتا ہے، آم کو محفوظ جگہ پر رکھتا ہے لیکن چوہے آدھا آم کھا جاتے ہیں۔ فقیر کا تحفہ تھا۔ بادشاہ باقی کا پھل رانی کو کھلا دیتا ہے۔ وقت پورا ہوتا ہے اور رانی کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوتی ہے۔ آم چونکہ آدھا تھا لہٰذا بچہ بھی معمول کے وزن اور قامت سے آدھا ہوتا ہے، یہ ادھیا جوان ہو کر کئی کارنامے انجام دیتا ہے۔ عمران خان بائیس سال سے ٹوٹی کھاٹ پر لیٹے تھے۔ ایک درویش نے انہیں اقتدار کا پھل دیا جسے نا معلوم مخلوق آدھا کھا گئی۔ اب جو اقتدار ملا تو آدھا۔ کابینہ میں کئی قوتوں، لابیوں اور گروہوں کو نمائندگی دیتے دیتے تحریک انصاف کی اپنی کرسیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ دو سال میں سب سے سنسنی خیز تبدیلی فردوس عاشق اعوان کو ہٹا کر شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کی شراکت داری ترتیب دینا ہے۔ اس تبدیلی کو پیپلز پارٹی نے یوں دیکھا کہ فرحت اللہ بابر نے ٹویٹ کر دیا: ’’ہوا میں تنکے اڑنے لگے ہیں، یہ اشارہ ہے کہ پس پردہ قومی حکومت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جمہوری جماعتیں خبردارر ہیں، کسی جھانسے میں نہ آئیں، تباہی میں حصہ دار نہ بنیں، سلیکٹروں اور سلیکٹڈ کو اپنا پھیلایا گند خود ہی صاف کرنے دیں، دونوں اس عمل پر عوام سے معافی مانگیں، تا ہم جمہوری جماعتیں سچائی کمیشن بنانے کا مطالبہ کریں‘‘ یار لوگ تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم جیسے کسی خاص سبب سے ان تبدیلیوں سے آنکھ چرا لیں تو مہربان یاد کرانے لگتے ہیں۔ مثلاً وزیر اعظم کے سٹاف میں تبدیلی پر بھلا کوئی شور مچانے کی بات تھی؟ پھر آٹا چینی سکینڈل کی رپورٹ عام کرنے پر وزیر اعظم کو دھمکیاں دی گئیں۔ یہ غیر معمولی بات تھی جس کی انکوائری یا فالو اپ سے کوئی آگاہ نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آٹا چینی سکینڈل کی فرانزک آڈٹ رپورٹ میں تاخیر بعض تکنیکی امور کے باعث ہوئی ہے لیکن پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ جس شعبے کے کارخانہ دار ہوں اس کے متعلق معمولی معاملہ بھی سنسنی خیز کہانی بن جاتا ہے۔اس سکینڈل کی کچھ تفصیلات لیک ہوئی ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ انکوائری کمیشن نے ایسے 50ہزار غیر رجسٹرڈ بیوپاریوں کا پتہ چلایا ہے جنہوں نے اربوں روپے کی چینی خریدی۔ تفتیشی حکام کا خیال ہے کہ ان ہی بیوپاریوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے ایک کلو چینی کی قیمت میں 23سے 27روپے اضافہ کر کے پچھلے ڈیڑھ برس میں صارفین سے اضافی 120ارب روپے ہتھیا لیے۔ تحقیقاتی کمیشن کے مطابق گزشتہ 5سال میں 362ارب روپے مالیت کا مشکوک لین دین ہوا۔ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی العریبیہ شوگر ملز نے 1289غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی جن میں سے 1200افراد نے کبھی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ خسرو بختیار کی مل نے 900غیر رجسٹرڈ افراد کو چینی فروخت کی جن میں 75نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ انکوائری کمیشن نے 3ہزار بروکروں اور آڑھتیوں کی شناخت کی ہے جنہوں نے چینی کی مقامی منڈی میں اجارہ داری کے لیے کام کیا اور بعض مل مالکان کو بھاری منافع کمانے میں مدد دی۔ چند روز قبل چیف سیکرٹری پنجاب میجر(ر)اعظم سلیمان کو تبدیل کر دیا گیا، کہا جا رہا ہے کہ سابق چیف سیکرٹری نے آٹا اور چینی سکینڈل کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر ڈال دی تھی۔ ان کی جگہ جواد رفیق ملک چیف سیکرٹری پنجاب آئے ہیں۔جواد رفیق شہباز شریف دور میں لاہور اور پنجاب کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔جانے کیوں ایک تاثر نشوو نما پا رہا ہے کہ کپتان کی فیلڈنگ تبدیل کی جا رہی ہے۔غیر منتخب افراد کا اہم حکومتی عہدوں پر تعینات ہونا اور بیورو کریسی کے مہروں کا خاص اندز میں آگے بڑھنا ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ سیاستدانوں کو عوام منتخب کرتے ہیں۔ بیورو کریٹس مقابلے کے امتحان میں چنے جاتے ہیں۔ سیاستدان لوگوں کی خدمت کرتے ہیں جبکہ بیورو کریٹس عوام پر حکم چلاتے ہیں، سیاستدان انسانی جذبات کے ساتھ کھیلتا ہے، بیورو کریٹ کسی منطق کے بنا ہی کھیلتا رہتا ہے۔ سیاستدان کسی شخص کو انکار نہیں کرتا جبکہ بیورو کریٹ کسی کو ہاں نہیں کہتا۔ سیاستدان قانون بناتا ہے، بیورو کریٹ اس قانون کی عملداری کراتا ہے۔ افسر شاہی اپنی ذہانت اورتجربے کے باوجود دنیا کے کسی ایک ملک کو اکیلے نہیں چلا رہی۔افسر شاہی کس باریکی سے کسی کو پریشان کر سکتی ہے اس کی مثال یہ فرضی واقعہ ہے: ایک آدمی بغیر جوتے کے داتا دربار حاضر ہوا۔ گارڈ نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ آدمی نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ شاید تم نے ہدایات نہیں پڑھیں۔ وہ دیکھو بورڈ پر لکھا ہے کہ دربار میں داخل ہونے سے پہلے جوتا اتاریں۔ لہٰذا براہِ مہربانی تم گھر جائو، جوتا پہن کر آئو اور پھر دربار کے باہر اتار کر اندر آئو۔ ایک ایسی جماعت جس کے حامی بڑی تعداد میں ہوں لیکن جس کی تنظیم کہیں دکھائی نہ دے وہ افسر شاہی کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ افسر شاہی سول ہو یا خاکی اس کے کام کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ فردوس عاشق اعوان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں وہ ق لیگ میں واپس جا سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں کوئی دوسری ذمہ داری تفویض کر دی جائے، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ بادشاہ کا دل کاروبار سلطنت سے اچاٹ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ پہلے ہی جنگل بیا بانوں میں رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ مصاحبین اس کیلئے ٹوٹی کھاٹ کا انتظام کر رہے ہیں تاکہ سرراہ اس پر لیٹ کر کسی فقیر درویش کا انتظار کرے۔ اس بار بادشاہ کو ایک کوشش کرنا چاہئے۔ پرانے بادشاہ کی طرح آدھے آم پر شاکر ہونے کی بجائے درویش کو تلاش کر کے نیا آم لے لینا چاہئے۔