بہار آتے ہی ساری تتلیاں جنگل کو لوٹ آئی ہیں۔ ندی کے ساتھ چلتی ہوا پگڈنڈی پر انہیں اڑائے پھر رہی ہے۔ایسے لگتا ہے جنگل نے اپنے سارے پھول اچھال دیے ہوں یا آسمان سے گل پاشی ہو رہی ہے اور تتلیوں کی شکل میں پھول اتارے جا رہے ہیں۔ شوخی میں اڑتی ایک تتلی بازو پر آ کر بیٹھی اور اگلے ہی لمحے اڑ گئی۔ رابرٹ فراسٹ یاد آگئے جنہوں نے کہا تھا تتلیاں نہیں ، یہ اڑتے ہوئے پھول ہیں۔ یہی اپریل کا مہینہ تھا جب فراسٹ نے لکھا تھا : It is blue butterfly day here in spring ۔ ہمارے جنگل میں تو مگر قوس قزح بکھری پڑی ہے۔بہار کا سارا موسم یہاں تتلیوں کا موسم ہوتا ہے۔ ندی پر ، پگڈنڈی پر ، کچنار کے پھولوں پر ، کونپلوں پر ہر طرف تتلیاں ہی تتلیاں ہیں۔ لکھنے بیٹھا ہوں تو سمجھ نہیں رہی عنوان کیا باندھا جائے: مارگلہ کی تتلیاں ، یا پھر تتلیوں کا مارگلہ؟ عرصہ ہوا جگنو اور تتلی تو ہم سے روٹھ ہی چکے۔ بھلے وقتوں کی بات تھی جب پروین شاکر نے کہا تھا : تتلیاں پکڑنے میں دور تک نکل جانا کتنا اچھا لگتا ہے پھول جیسے بچوں پر اب وقت بدل چکا ہے۔ بچے اب ڈیجیٹلائز ہو گئے ہیں ۔ کون اب سارا دن پھولوں سے لدے راستوں پر تتلیاں ڈھونڈنے میں دن کاٹے۔بچے سارا دن گیجٹس میں الجھے رہتے ہیں اور جنگل میں تتلیاں ان کا انتظار کرتی رہ جاتی ہیں۔پھر جنگل اب رہ ہی کتنے گئے ہیں۔ شہرتو کنکریٹ سے ڈھک چکے۔ تتلیاں اور جگنو کہاں سے آئیں۔پرتاب سوم ونشی نے کہا تھا : اس میں بچے کا ہے گناہ کتنا وہ اگر تتلیاں نہیں لکھتا مارگلہ کا جنگل البتہ پرانے وقتوں کو تھام کر کھڑا ہے۔ چند قدموں کے فاصلے پر ندی ہے۔ ندی عبور کریں تو پہاڑ کی دہلیز پر تتلیاں ہی تتلیاں ہیں۔ ان کے پروں پر ایسے رنگ اور نقش گندھے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جائے۔میں تو تتلی کے ایک ہی نام سے واقف تھا اور میرے لیے ہر تتلی صرف تتلی تھی۔مارگلہ کے جنگل سے راہ و رسم ہوئی تو ’ برڈنگ‘ والوں نے بتایا کہ ہی تتلی ، تتلی تو ہوتی ہے مگر ہر تتلی کا اپنا نام ہوتا ہے۔ یہ نام بھی میں نے انہی سے سیکھے۔ لیکن کوئی کتنے نام سیکھ سکتا ہے۔ پرانے وقتوں میں مارگلہ میں باگھ ہوتے تھے۔ پھر ختم ہو گئے لیکن شیروں جیسی تتلیاں اب بھی موجود ہیں۔۔دیکھیں تو لگتا ہے ننھا سا ایک شیر ہوا کے دوش پر اڑتا جا رہا ہے۔ ایک’ کامن ٹائیگر ‘ ہے۔یوں سمجھیے کہ بنگالی شیر کی کھال کا نقش اس کے پروں میں سمٹ آیا ہے۔کندھوں پر سفید دائرے ، درمیان میں نارنجی نقش ، کناروں پر دونوں رنگوں کی گوٹا کناری ۔ ایک ’پلین ٹائیگر‘ ہے۔کندھے بالکل کامن ٹائیگر جیسے لیکن باقی کے پر سارے نارنجی۔اور نیچے وہی گوٹا کناری مگر تھوڑا مختلف انداز لیے ہوئے۔ جنگل میں داخل ہوں تو پہلی ملاقات انہی سے ہوتی ہے۔ ندی کے آس پاس پرواز کر رہی ہوتی ہیں اور بے باک اتنی ہیں کہ گاہے سر پر آ بیٹھتی ہے اور کبھی دامن پر۔ ’ بلو ٹائیگر‘ تو بالکل مارگلہ کے تیندوے کی طرح ہے۔ اس کا نام بلو لیپرڈ ہونا چاہیے تھا۔پر پھیلاتے ہوئے اڑتی ہے تو لگتا ہے جیسے کسی نے مقامی تیندوے کی کھال بچھا رکھی ہو۔جو کلر سکیم تیندوے کی کھال کا ہے وہی اس کا ہے۔ جو دھاریاں تیندوے کی ہیں وہی اس کی ہیں۔ جس انداز سے تیندوے کی کھال پر چھوٹے چھوٹے گول نقش ہوتے ہیں ، ہو بہو وہی نقش اس کے پروں پر پائے جاتے ہیں۔یں سمجھیے کہ ایک ننھا سا تیندوا اڑتا ہوا آپ کی طرف آ رہا ہے۔کامن ٹائیگر ندی کے کناروں پر مل جاتی ہے ، بلو ٹائیگر مگر کافی آگے جا کر نظر آتی ہے۔واٹر سپرنگ کے آس پاس۔ اکثر مرغ سیمیں کے سر پر منڈلاتی رہتی ہے۔ جہاں یہ اڑ رہی ہو سمجھ لیجیے آس پاس مرغ سیمیں کا کوئی جوڑا بھی مٹر گشت کر رہا ہے۔ ایک ’ کامن لیپرڈ‘ ہے۔بالکل انڈین لیپرڈ جیسی۔ یہ سارا خاندان کہیں ایک جگہ بیٹھ جائے تو دیکھنے والے کو لگے کہ مارگلہ کے جنگل میں تیندوا آرام کر رہا ہے۔ بدھو بن کا جنگل ’ انڈین کائو‘ سے بھرا پڑا ہے۔ اس کے پروں کے رنگ اور نقش ایسے ہیں جیسے ایک خوبصورت ، صحت مند بھوری گائے اڑ رہی ہو۔بھورے رنگ کے پروں کے نچلے بارڈر پر سفید مائل موتی سے جڑے ہیں جیسے چراغاں ہو رہا ہو۔ شیر ، گائے اور چیتے ہی کی نہیں ، موروں کے گھرانے کی بھی اپنی تتلیاں ہیں۔’پیکاک پینزی‘ کے پر بالکل مور کے پروں جیسے ہوتے ہیں۔ کسی پھول پر منڈلا رہی ہو تو ایسے لگتاہے ایک چھوٹا سا مور اڑ رہا ہو۔اسی خاندان کی ’ بلو پینزی‘ تو حسن کا شاہکار ہے۔مور کے پر کی آنکھ جیسا نقش ہی نہیں اس کے رنگوں کے سارے شیڈ بھی اس کے پروں میں ہوتے ہیں۔ایک بچے کو ڈھیر سارے واٹر کلر دے دیے جائیں اور وہ سارے ہی رنگ کسی صفحے پر انڈیل دے تو گویا ’ بلو پینزی‘ کے پر بن جائیں گے۔ ’’ایگ فلائی‘‘ کو آپ مرغ سیمیں کے گھرانے کی تتلی کہہ لیجیے۔ مرغ سیمیں کے پروں کے سارے رنگ اس کے پروں میں سمٹ آئے ہیں اور پروں کے درمیان میں دو انڈے رکھے ہیں۔ ایک دائیں پر کے بیچ اور دوسرا بائیں پر کے درمیان۔ یہ تتلی تین چار رنگوں میں دستیاب ہے اور ہر رنگ کا اپنا الگ کمبی نیشن ہے۔کسی کا انڈہ سفید ہے تو کسی کا نارنجی ۔ قدرت نے ’ میچنگ اینڈ کنٹراسٹ‘‘ کا سارا حسن اور ذوق اس کے ننھے پروں میں مجسم کر دیا ہے۔ ’کامن ایوننگ‘ ان سب سے جدا ہے۔ اس کے کندھوں پر چاند تارا سا بنا ہے جیسے ترکی اور پاکستان کے پرچم ایک ساتھ لہرا رہے ہوں۔یا جیسے کوئی نقاب پوش لڑکی ہو ، جس کی صرف آنکھیں دکھائی دے رہی ہو۔ پیل گراس بلیو ، انڈین ڈارٹ، انڈین سکپر ، ییلو ارنج ٹپ سمیت کتنی ہی اقسام کی تتلیاں ہیں جو ان دنوں مارگلہ کی پگڈنڈیوں پر بے فکرے بچوں کی طرح بھاگتی پھر رہی ہیں۔خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے کہ جس جس رنگ کے پرندے اور جانور اس جنگل میں پہائے جاتے ہیں اسی رنگ کی تتلیاں بھی یہاں موجود ہیں۔ شاید ہر قبیلے کی اپنی اپنی تتلی ہوتی ہو جو کسی پیغام رساں کی طرح قبیلے کے سندیسے لے کر اڑتی پھرتی ہو ، مکتوب پہنچاتی ہو اور جواب لاتی ہو۔ جنگل میں آج بہت خاموشی تھی۔ میں بیٹھا سوچتا رہا کہ جنگل ہمارا ہے ، پرندے اور تتلیاں یہاں کی ہیں لیکن ہمارے پاس ان کو پکارنے کے لیے اپنی اردو زبان میں نام نہیں ہیں ۔ ہم کسی ننھے وجود کو دیکھتے ہیں ، اس کی تصویر بناتے ہیں اور پھر گھنٹوں انٹر نیٹ پر سر کھپانے کے بعد معلوم ہوتا ہے اس کا انگریزی میں یہ نام ہے۔ انگریز نے یہاں کے پرندوں اور تتلیوں کے نام رکھ لیے ، ہم ا نہیں کوئی نام نہیں دے سکے۔کیا ہم گونگے ہیں؟ مارگلہ کی تتلیوں کی کہانی لکھی تو خیال آیا ہم خود بھی شاید کسی قفس کی تتلیاں ہیں جو اپنے سارے حوالے بھول چکیں۔