جزیرہ نما عرب جو کہ دنیا کا سب سے بڑا’’جزیرہ نما‘‘ہے، ایشیا کے جنوب مغربی کو نے میں واقع ہے،جسکا باقی دنیا سے پیوند اور چلن ہمیشہ، بڑی حد تک جدا اور مختلف رہا ہے ۔ اگرچہ اسکا محل وقو ع علیحدگی اور انقطاعی صورت لیئے ہو ئے ہے ، تاہم بین الا عظمی اعتبار سے، یہ سرزمین ایشیا، افریقہ اور یورپ کے درمیان’’ نقطہ ماسکہ‘‘(Focal Point) کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے سبب اس مقام کو بین الاقوامی تجارتی سنگھم اور ایک اہم رابطے کی حیثیت حاصل رہی۔عرب کے تین بڑے شہر تھے، مکہ ، مدینتہ المنورہ(یثرب) اور طائف۔۔۔ انفرادی سطح پر بڑے اور نمائندہ شہر ہونے کے ساتھ، یہ علاقائی مراکزبھی تھے، جن کے ساتھ اس خطے کے لوگوں کی ضروریات وابستہ رہیں ، مکہ بنیادی طور پر بہت بڑا تجارتی مرکز تھا، حج اور عمرہ کے سبب زائرین کی آمدورفت کی کثر ت رہتی، تاہم مقامی لوگوں کے مالی حالات بہت اچھے نہ تھے، قرآن نے اس بستی کو " بوادٍ غیرَذی زَر عٍ" بے آب وگیاہ بستی ۔ یعنی زمین بنجر، کالے پہاڑ، سبزہ ناپید اور پانی کمیاب۔ اس لیے مقامی لوگوں کے معاش کا انحصار صرف اور صرف تجارت پر ہی ہوسکتا تھا، جس کو نبی اکرمﷺ کے تیسرے دادا حضرت عبدِ مناف نے منظم کیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ حاجیوں کی آمدورفت کے سبب، پیدا ہونے والے مالی وسائل مقامی لوگوں کی ضروریات کیلئے کافی نہ ہیں، نوبت بعض اوقات فاقہ کشی تک آجاتی ہے، چنانچہ عبدِ مناف نے اپنے چاروں بیٹوں کو یہ ذمہ داری سونپی ،کہ وہ مکہ اور اسکے باشندے با لخصوص قریش کی تجارت کیلئے ایک مربوط نظام وضع کریں۔ کعبہ کا متولی ہونے کی نسبت سے ، قریش کو دنیا میںممتاز مقام حاصل تھا، چنانچہ حضرت ہاشم، جو مکہ کے سردار اور اپنی وجاہت اور عالی سوچوں کی بنیاد پر نہ صرف خطے بلکہ شام و روم تک عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، نے مکہ کی تجارت کو مضبوط بنیادوں پہ استوار کیا، سال میں دو تجارتی کاررواں روانہ کئے جاتے، جوکہ سردیوں میں یمن اورگرمیوں میں شام کی طرف، یمن کی بندرگاہ پر آیا مال، یہ تجارتی کارواں لیکر شام کی منڈیوں تک جاتے اور وہاں کا مال یمن تک آتا۔ یہ دور اگرچہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کا تھا ، تجارتی قافلے لوٹ لیے جاتے ، لیکن کعبہ کے متولی ہونے کے سبب ان کو ایک امتیاز میسر تھا ، اور یہ کاررواں بحفاظت اپنی منزل تک پہنچ جاتے ، نیز یہ کہ حضر ت ہاشم نے اس قافلے کیلئے شاہانِ روم و عجم سے خصوصی مراعات حاصل کر رکھی تھیں، ان پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا تھا، اور ان کو اعلیٰ ترین منڈیوں تک رسائی میسر تھی،حضرت ہاشم کی طرح آپ کے دیگر بھائیوں نے دنیا کے دوسرے خطوں میں ایسے ہی روابط استوار کر رکھے تھے ، جس میں عبدِشمس کے ذمہ حبشہ کا علاقہ، مطلب کے پاس یمن ، جبکہ نوفل کے پاس فارس تھا، جسمیں یہ شخصیات سفارت کاری کا فریضہ سر انجام دیتے۔ ان تجارتی کارروانوں کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اسمیں سارے مکہ نے اپنا مال شامل کیا ہوتا، اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے پورا مکہ استفادہ کرتا اور بطور خاص جو کم استعداد اور حیثیت والے لوگ تھے، ان کو خصوصی حصہ دیا جاتا، قریش کے ان تجارتی کارروانوں اور قافلوں کا ذکر سورہ قریش میں بھی کیا گیا ہے۔ از خود نبی اکرمﷺ ایسے ہی تجارتی قافلوں کیساتھ اوائل عمری میں ہی سفر فرما چکے تھے، اور بالخصوص مکہ کی سب سے بڑی تاجر شخصیت حضرت خدیجہ الکبریؓ کا تجارتی قافلہ، جو آپ شام کیطرف لیکر گئے تھے، اسمیں آپ کے حُسن انتظام اور امانت و دیانت کے سبب ریکارڈ آمدن ہوئی، یہی تجارتی سفر ، آپﷺ کی زندگی میں ایک اہم حیثیت اختیار کر گیا اور آپﷺ کی حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوگئی، جو کہ مالی و سائل کی بہم رسانی کا ذریعہ بنی۔مکہ میں نبی اکرم ﷺ کے قریبی ساتھیوں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور بالخصوص حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کا شمار کامیاب تاجروں میں ہوتا تھا، مکہ سے مدینہ کیطرف ہجرت سے مسلمانوں کی مالی او راقتصادی حالت پر ، ابتدائی طور پر زیادہ اچھے اثرات مرتب نہ ہوئے ، ان کے گھربار کیساتھ ان کا کاروباری نیٹ ورک بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہوگیا۔ مدینہ منور میں تجارت کیساتھ زراعت بھی تھی، تاہم یہاں کی اکانومی پر یہود کا مکمل قبضہ تھا، بلکہ تجارتی منڈی جو کہ بنوقینقاع کے بازار میں تھی، اس پر انکی مکمل اجارہ داری تھی، مدینہ کے مقامی قبیلے اوس خزرج اپنی طویل باہمی جنگوں کے سبب اقتصادی طور پر تباہ حال تھے اور اس تباہی میں یہود کی سازشوں کا دخل اسطرح تھا کہ انہوں نے ان دونوں قبائل کو ہمیشہ باہم دست و گریباں کرواکے رکھا اور یوں انکی افرادی قوت اور مالی وسائل ایک دوسرے کے خلاف صرف ہوتے، جسکا فائدہ یہود اُٹھاتے۔ نبی اکرمﷺ اس ساری صورتحال کا بنظر غائر جائزہ فرمارہے تھے ،آپﷺ نے صحابہ کی بھی اس ضمن میں حوصلہ افزائی فرمائی ، اور بالخصوص اہل قریش کی تجارتی امور میں جو مہارت تھی اس کو بروئے کار لایا گیا اور جلد ہی ، یہود کی اس بالا دستی کو ختم کرتے ہوئے ، مسجد نبی کے ساتھ ایک نئی مارکیٹ قائم کی گئی ، جسکو ٹیکس فری بنایا گیا ۔ حضر ت عبد الرحمن بن عو فؓ کو بالخصوص امور تجارت میں اللہ تعالیٰ نے خصوصی فضل سے سر فراز کیا اور آپ کا شمار اس وقت دنیا کے چند بڑے تاجروں میں ہونے لگا۔ آپ کی تجار ت کا دائرہ اتنا وسیع اور وسائل ا تنے زیادہ تھے کہ دنیا کی بڑی منڈیو ں میں آپ کے نام کا سکہ چلتا تھا، نبیﷺ کی دعا کے سبب مٹی کو ہاتھ ڈالتے تو سونا ہوجاتی، آپ فرمایا کرتے تھے کہ میر ی تجارت کے چار اصول ہیں۔ i۔میں نے سامان تجارت کبھی ادھار پر نہیں لیا ii۔اپنا سامان کبھی ادھار پر نہیںبیچا iii۔آمدن اور مارکیٹ کی تیزی کے لالچ میں مال کبھی ذخیرہ نہیں کیا ۔ iv۔اور بوقتِ فروخت اپنے مال کا عیب کبھی نہیں چھپایا۔ مدینہ کی مارکیٹ کا از خود نبی ﷺ بھی بالعموم، ظہر کے بعد دورہ فرمایا کرتے اور شفافیت، گراں فروشی، نرخ اور ناپ تول کے امور کا بطور خاص جائزہ لیتے ،ایسے ہی ایک موقع پر ، جب کہ مدینہ منورہ میں بارش ہوئی اور ابھی اسکے اثرات باقی تھے، تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ تاجرخشک گندم کا ڈھیر لگائے بیٹھا ہے، اسے فروخت کررہا ہے ، آپﷺ نے اپنا دست مبارک اس گندم کے ڈھیر میں ڈال دیا اور اندر سے گیلی گندم نکل آئی، آپﷺ نے اسکی سرزنش فرمائی اور پوچھا یہ کیا ہے ، اس نے کہا یارسول ﷺ بارش سے بھیگی گندم میں نے نیچے کردی اور نیچے سے سوکھی گندم اوپر کرلی ، کیونکہ لوگ تو سوکھی گند م ہی خریدیں گے ۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے وہ عظیم فرمان دنیا کو عطا کیا :مَنْ عَشَّا فَلِیْس مِنّا۔ یعنی جس نے ملاوٹ کی، مطلب خریدار کو دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ غالباً حضرت عمرؓ کے عہد کا معروف واقعہ ہے کہ ایک شخص کھجوروں کے دو الگ الگ ڈھیر لگا کر ، ان کو الگ الگ قیمت کیساتھ بیچ رہا تھا ، آپؓ کے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ ایک نمبر ہے اور یہ دو نمبر ، آپ ؓجلال میں آگئے اور فرمایا تو میرے رسولﷺ کی امت کو طبقات میں تقسیم کر رہا ہے ، اورپھر اپنے ہاتھوں سے ان دونوں ڈھیروں کو آپس میں ملادیا اور فرمایا اب انکی اوسط قیمت مقرر کرکے فروخت کرو۔