بھارت میںعام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ نریندرمودی نے پہلے روز ہی بہار میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈینگ ماری کہ لوک سبھا کے انتخابی نتائج (تقریباًجو ایک ماہ بعد آئیں گے) سامنے آنے کے بعد اپوزیشن کا اتحاد ختم ہو جائے گا۔ مودی کا کہنا تھا کہ شکست کے خوف سے اپوزیشن جھوٹے الزامات لگا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب مودی اقتدار میں واپس آئے گا تو کرپشن،موروثی سیاست اور غریب کے نام پر لوٹ مار ختم ہو جائے گی اور مذہب اورذات پات کی بنیاد پر مزید سیاست نہیں کی جا سکے گی ۔ جی ہا ں! یہ تمام نعرے اوردعوے قر یباًوہی ہیں جو عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اپنی الیکشن مہم اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی کرتی آ رہی ہے۔ الیکشن تجزیوں کے مطابق اگرچہ امکان غالب ہے کہ اپوزیشن پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی لیکن جیت پھر بھی مودی کی ہو گی۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیان کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی عام انتخابات میں فتح سے پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن اور مسئلہ کشمیر کے حل لیے بامقصد بات چیت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ نہ جانے عمران خان کو ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں ایسی مداخلت کرنے کا کیا شوق ہے جس سے پاکستان کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ حال ہی میں عمران خان نے افغانستان کے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہاں ایک عبوری حکومت کی نگرانی میں عام انتخابات کرانے چاہئیں۔ فطری طور پر افغان صدر اور حکومت کے علاوہ اشرف غنی کے مخالفین نے بھی متذکرہ بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قراردیتے ہوئے پسند نہیں کیا۔ افغان حکومت نے تو اپنے سفیر مشال عاطف کو واپس بلا کر انتہائی اقدام بھی کر ڈالاتھا۔ عذر گناہ ازبد تر گناہ، ہماری وزارت خارجہ نے یہ وضاحت کی وزیر اعظم نے انتخابات کے پاکستانی ماڈل کی جانب اشارہ کیا تھا جس میں الیکشن کا انعقاد عبوری حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیا جانا چاہیے تھا،پاکستان کا افغانستان میں اس کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں کہ امن کو ایک ایسے سیاسی عمل کے ذریعے فروغ دیا جائے جس کے مالک اور سربراہ افغان ہوں۔ افغانستان میں طالبان سمیت پاکستان کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ پاکستان اس کے ساتھ back yard یعنی اپنے پچھواڑے کی طرح سلوک کرتا ہے کہ کابل میں جو بھی حکومت کانظام آئے اس کی مرضی کا ہونا چاہیے۔بالکل اسی طرح جیسے جب بھارتی ہارڈلائنراور میڈیا کہتے ہیں کہ ہم ایک سپر طاقت ہیں اور پاکستان میں تو جمہوریت کا وجود ہی نہیں بلکہ یہاں فوج کا راج ہے تو ہمیں بطور خوددار اورآ زادملک کے بہت برالگتا ہے۔ اب جبکہ بھارت کے عام انتخابات میں کانگریس اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے مابین گھمسان کارن پڑا ہوا ہے،ہمیںاس پرائی لڑائی میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے۔غالباً خان صاحب نظریاتی طور پر خود کو نریندرمودی کے ہم آہنگ سمجھتے ہیں کیونکہ مودی کا بھی دعویٰ ہے وہ بہت سادہ منش ہے اورکرپشن اور موروثی سیاست کے خلاف ہے۔ لگتا ہے عمران خان کا تاریخ کا مطالعہ کمزور ہے۔ یہ تو درست ہے کہ بی جے پی کے پہلے دور میں جب اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں ہوئیں۔ واجپائی بس یاترا پر لاہور آئے لیکن اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو یہ پیش رفت ایک آنکھ نہ بھائی، اس وقت خفیہ طور پر کارگل کی مہم جوئی کی تیاری کی شروعات ہو چکی تھیں۔ مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد 2001ء میں آگرہ سمٹ میں جنرل پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی کے درمیان کشمیر سمیت دونوں ملکوں کے درمیان حل طلب مسائل پر بات چیت ہوئی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں اگرچہ بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کا ذکر کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ کانگریس کی حکومت کو پاکستان سے کوئی بھی بات چیت کر نے کی صورت میں یہی خطرہ لاحق رہے گا کہ انتہا پسند بھارتی اپو زیشن کا ردعمل منفی ہو گا۔ بات اصولی طو ر پر تو ٹھیک ہے لیکن نریندرمودی نہ تو واجپائی ہے اور نہ ہی ایل کے ایڈوانی بلکہ ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنے ہاتھ گجرات میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مودی کی مسلم کش اور پاکستان دشمن پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔یہ بھی انوکھی منطق ہے کہ ایک طرف وزیر خارجہ بارہا اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ آئندہ چند روز میں بھارت دوبارہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے دعا گو ہیں۔ پاکستان جب سے ایٹمی طاقت بنا ہے نریندرمودی نے اپنی پیشروحکومتوں کے برعکس پہلی مرتبہ پلوامہ واقعہ پاکستان کے سرمڑھ کر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے بالا کوٹ پر بمباری کرنے کی جرأت کی۔ واضح رہے کہ واجپائی کی حکومت نے کارگل تنازعہ کے باوجود بھارتی فضائیہ کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ وہ لائن آف کنٹرول کی بھی خلاف ورزی نہ کریں۔ مقام شکر ہے کہ پاکستانی ائیرفورس نے بڑی مہارت کے ساتھ بھارت کے دانت کھٹے کر دیئے لیکن دنیا بھر میں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا کہ ایک ایٹمی طاقت کا دوسری ایٹمی طاقت پر حملہ پوری انسانیت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی عام انتخابات میں سوشل میڈیا کے ناجائز استعمال سے جعلی، خود ساختہ خبریں بڑی مہارت سے پھیلائی جا رہی ہیں۔بالاکوٹ پر حملے کے موقع پر بھی 2005ء کے زلزلے سے ہونے والی تباہی کی ایک فوٹیج دکھا کر دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی فضائیہ نے دشمن کا کیمپ تباہ کر دیا ہے۔ گویا کہ پی ٹی آئی اور بی جے پی کی حکومت کے درمیان یہ قدر بھی مشترک ہے کہ اخبارات اور ٹیلی ویژن کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی سچ اور جھوٹ کی پروا کیے بغیر خوب پراپیگنڈا کیا جائے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے، یہ وہی نریندرمودی ہیں جن کے حوالے سے میاں نواز شریف کو پی ٹی آئی سمیت اپو زیشن یہ کہتے نہیں تھکتی تھی کہ ’مودی کا جو یارہے، غدار ہے ‘ میاں نواز شریف کو مودی کی اپنے دوست سٹیل میگنیٹ سجن جندال کے ساتھ ان کی نواسی کی شادی پر آنے اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے میں مبینہ طور پر نرم رویہ رکھنے کی پاداش میں سکیورٹی رسک تک قرار دیا جاتا رہا۔ اب عمران خان بھی نواز شریف والی غلطیاں دہرارہے ہیں ریاستوں کے درمیان ذاتی تعلقات نہیں بلکہ قومی مفادات ارفع ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف کے دور کے مقابلے میں ماحول کافی بدل چکا ہے اور مقتدر قوتیں اور سیاسی حکومتیں بھارت کے ساتھ سلسلہ جنبانی آگے بڑھانا چاہتی ہیں لیکن اس ضمن میں معروضی حقائق سے روگردانی مہنگی پڑسکتی ہے۔ اسرائیل میں انتہا پسند، مسلمان اور فلسطینی دشمن نیتن یاہو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہو گیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ نیتن یاہو ہارڈ لائنر ہے اور وہ فلسطین کا مسئلہ حل کردے گایہ مضحکہ خیز ہو گا کیونکہ نیتن یاہو جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور اور دوٹوک حمایت حاصل ہے ، وہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عندیہ دے چکا ہے اور ایسا ہی کرے گا۔ ماضی میں ایسی مثالیں یقینا ملتی ہیںجہاں ہارڈ لائنر اور کیمونسٹ دشمن امریکی صدر نے چین اور روس سے بہتر تعلقات کی بنیاد رکھی۔ 1970ء میں امریکی صدر رچرڈنکسن نے اپنے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہینری کسنجر کا پاکستان کے ذریعے چین کا خفیہ دورہ کرایا جس کے نتیجے میں عوامی جمہوریہ چین کوامریکہ نے تسلیم کر لیا اور ابھی تک یہی پالیسی جاری ہے۔اسی طرح 80کی دہائی میں امر یکی صدر رونلڈ ریگن نے جو سوویت یونین کو Evil Empire کہتے تھے اس کے ساتھ بقائے باہمی کی پالیسی کا آغاز کیا ۔یہ رہنما دور اندیش اور مدبر تھے لیکن مودی اور عمران خان فی الحال یہ دعویٰ نہیں کر سکتے۔لہٰذا بہتر ہو گا کہ بھارتی انتخابات پر سرکاری سطح پر رائے زنی کرنے کے بجائے تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔ یقینا پاکستان کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہاں کس پارٹی کی حکومت بنتی ہے لیکن جسے بھی بھارتی عوام منتخب کریں گے اس سے پاکستان کو مذاکرات تو کرنا ہی پڑیں گے۔