سانحہ ساہیوال تکلیف دہ اور شرمناک ہے، ناقص منصوبہ بندی اور وحشیانہ طرز عمل کا اعتراف حکومتی رہنما تک کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایڈیشنل چیف سیکرٹری فضیل اصغر نے درجنوں صحافیوں کی موجودگی میں ناقص پہلوئوں کی نشاندہی کی اور جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کا انتظار کرنے کو کہا مگر سانحہ ماڈل ٹائون کے ساتھ اس کا موازنہ سراسر نا انصافی اور سنگدلی ہے۔ میاں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور حمزہ شہباز شریف جب سانحہ ساہیوال پر حکومت کو کوستے اور عمران خان و عثمان بزدار کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں تو عقل سلیم سرپیٹ لیتی ہے اور انسان دیوار سے سر ٹکرانے کی سوچتا ہے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی ذیشان، خلیل اور گاڑی میں سوار کسی مرد و زن سے مخاصمت نہ تھی وہ انہیں جانتے تک نہ تھے، جائے وقوعہ پر جانے اور کارروائی شروع کرنے سے قبل ان کی آپس میں میٹنگ نہیں ہوئی جس میں انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا ہو، اندوہناک کارروائی چند منٹ میں مکمل ہو گئی۔ اسے کوئی چینل لائیو دکھا رہا تھا نہ فیصلہ سازوں کو کوئی نظرثانی کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ ماڈل ٹائون سانحہ سے قبل رانا ثناء اللہ کی زیر صدارت ضلعی انتظامیہ کا اجلاس ہوا، بعض افسران نے رانا صاحب اور وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ کو ممکنہ کارروائی کے نتائج عواقب سے آگاہ کیا ۔پولیس فورس کسی دہشت گرد کو ممکنہ خود کش حملے سے روکنے اور بمبار کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے نہیں بھیجی گئی تھی بلکہ اسے راستے کی وہ رکاوٹیں ہٹانے کے لیے کہا گیا جو تحریک منہاج القرآن نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حفاظتی نقطہ نظر سے قائم کی تھیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون طے شدہ منصوبے کے تحت ڈاکٹر طاہر القادری کو ڈرانے دھمکانے اور تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے روکنے کے لیے کیا گیا۔ پولیس اور انتظامیہ نہتے سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال ہوئی اور اڑھائی بجے رات سے دن گیارہ بجے تک ظلم کا بازار گرم رہا۔ لاشیں گرتی رہیں، نہتے شہری زخمی ہوتے رہے‘ ٹی وی چینلز پر پولیس کارروائی چلتی رہی مگر حکمران سوئے رہے یا اپنے حواریوں سے داد وصول کرنے میں مگن، چودہ افراد شہید اور اس سے زائد زخمی ہوئے ‘چار سال گزرنے کے باوجود کسی کو سزا ملی نہ بروقت ایف آئی آر کٹی اور نہ قابل اعتمادجے آئی ٹی بنی، جوڈیشل کمیشن نے جن مجرموں کی نشاندہی کی ان سے بھی کسی نے باز پرس نہ کی۔ انعامات البتہ پروموشن اور غیر ملکی تعیناتی کی صورت میں بہت سوں کو ملے۔ مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا، تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ ہمارے سیاستدانوں کو یہ پختہ یقین ہے کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اور یہ سادہ لوح نہیں، اول درجے کے بے وقوف ہیں۔ ورنہ روٹی کپڑا مکان کے نعرے پر کئی عشرے تک ہے جمالو کی صدائیں لگاتے، نہ دولت لوٹ کر بیرون ملک اثاثے، بینک اکائونٹس بڑھانے والوں کو ایوان صدر تک پہنچاتے اور نہ پانامہ سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف دوٹوک عدالتی فیصلہ آ جانے کے بعد ’’شیر اِک واری فیر‘‘ کی گردان کرتے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب یہ کہا کہ میاں صاحب فکر نہ کریں لوگ پانامہ کو چند دنوں، ہفتوں میں بھول جائیں گے تو یہ ایک تجربہ کار سیاستدان کا عوام کی یادداشت کو خراج تحسین تھا اور جب سید خورشید شاہ سے لے کر رضا ربانی اور مراد علی شاہ تک زرداری خاندان اور اومنی گروپ کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات کو اٹھارہویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کا نام دیتے ہیں تو دراصل عوام کی عقل و دانش کا ماتم ہوتا ہے کہ انہیں بے وقوف بنانا کس قدر آسان ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا سانحہ ساہیوال سے موازنہ بھی سیاستدانوں کی اسی سنگدلانہ سوچ کا مظہر ہے۔ سانحہ ساہیوال کی ناقص منصوبہ بندی اور اہلکاروں کے وحشیانہ طرز عمل پر اٹھنے والے بعض سوالات کا ابھی تک تسلی بخش جواب نہیں ملا مگر یہ عمران خان، عثمان بزدار یا کسی دوسرے وزیر مشیر کے طے شدہ ایجنڈے کا حصہ تھا نہ ذیشان اور خلیل سے کسی حکمران کو کد تھی۔ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کی ٹریننگ، طرزعمل اور انداز کار پر اٹھنے والے تمام سوالات کا جواب جس قدر عمران خان اور عثمان بزدار پر واجب ہے اس سے کہیں زیادہ میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور رانا ثناء اللہ کی ذمہ داری ہے کہ انہیں دس سال تک متواتر بلاشرکت غیرے اصلاح احوال کا موقع ملا مگر انہوں نے سدھارنے کی کوشش تو کیا کرنی تھی‘ اس کا مزاج مزید بگاڑ دیا۔ پولیس مقابلوں کی وبا اس دور میں پھیلی اور کئی بے گناہ سیاسی مخالفت، پولیس افسران کی طمع و لالچ اور ذاتی دشمنی کی بھینٹ چڑھے۔ عمران خان اور عثمان بزدار کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے پانچ ماہ میں چشم پوشی کی۔ یہ بھول گئے کہ سابقہ دور کی ہتھ چھٹ پولیس کسی وقت نیا گل کھلا سکتی ہے۔ ان کی نیک نیتی، محنت اور عزم پر پانی پھیر کر محرم کو مجرم بنا سکتی ہے۔ اب بھی یہ کام اگر نہ ہوا تو نئے حادثے کا امکان موجود ہے کہ برسوں بلکہ عشروں کی بگڑی عادتیں افسروں کے تبادلے، چند معطلیوں اور گرفتاریوں سے درست نہیں ہوتیں۔ اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ(ن) کی تنقید غلط اور سانحہ ساہیوال کا سانحہ ماڈل ٹائون سے موازنہ محض دھوکہ دہی لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ 18جنوری سے اب تک جو ہوا سب ٹھیک ہوا، کور اپ کی کوششیں درست تھیں اور حکومت کے لیے ستے خیراں ہیں۔ سانحہ کے بعد عمران خان نے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے اور پولیس فورس کی اصلاح کرنے کا وعدہ کیا، جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ آنا باقی ہے۔ جوڈیشل کمیشن اگر بنا تو ذمہ داروں کا تعین وضاحت سے ہو گا کہ چین آف کمانڈ میں کہاں کہاں کس نوعیت کی کوتاہی ہوئی لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ پولیس یا کسی دوسرے ادارے کو لائسنس ٹو کل دینے کی جو روایت معاشرے میں موجود ہے اور دہشت گردی کی جنگ شروع ہونے کے بعد ناگزیر ضرورت کے تحت بعض عدالتی اختیارات بھی امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں نے حاصل کر لیے ہیں ان پر سختی سے قدغن لگانا ضروری ہے۔ مہذب اقوام کی طرح یہ اُصول اب پورے معاشرے اور نظام پر لاگو کرنا پڑے گا کہ ایک بے گناہ کو بچانے کے لیے اگر ننانوے گناہگاروں کو بھی رعایت دینی پڑے تو مضائقہ نہیں، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور اس کا عملی اظہار بھی ہونا چاہیے۔ ماضی میں بے گناہ بھی پولیس گردی کا نشانہ بنتے رہے اور کسی نے باز پرس کی ضرورت محسوس نہ کی، نظریہ ضرورت، ہر سطح پر کارفرما رہا اور سرکاری محکمے جھوٹ بولتے، سچ کو چھپانے اور قومی مفاد کے نام پر اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرنے میں طاق ہو گئے۔ سی ٹی ڈی کے بیانات اس روایت کا تسلسل تھے مگرقبول عام محاصل نہ کر سکے کہ ننھے عمیر اورموقع پر بننے والی ویڈیو نے جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا۔ حکومت اور سرکاری اداروں کو مان لینا چاہیے کہ موبائل فون کی صورت میں مائیک اور کیمرہ اب ہر شہری کے ہاتھ میں اور سوشل میڈیا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے زیادہ طاقتور ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں اور ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دس جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا حکومت اور ریاستی ادارے اب سچ بولنے کی عادت اپنائیں۔ ابھی تک موجودہ حکومت کی ساکھ برقرار ہے۔ اپوزیشن چونکہ ساکھ سے محروم ہے لوگ پارلیمنٹ میں اس کے احتجاج کو مگرمچھ کے آنسو قرار دے رہے ہیں۔ وہ سانحہ ماڈل ٹائون اور نقیب اللہ محسود کیس کو یاد کر کے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے مذمتی اور جذباتی بیانات کو ڈرامہ بازی سمجھتے ہیں لیکن اگر حکومت نے سانحہ ساہیوال کو آخری سبق آموز واقعہ سمجھ کر دور رس اور پائیدار اقدامات نہ کیے تو انجام ماضی سے مختلف نہ ہو گا۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔