ایک صالح مومن کی فکری پختگی کا اظہار اس کے عمل سے ہوتا ہے اس کا مجاہدانہ کردار اور دلیرانہ مزاج اس کے فکری و قلبی اتقان کا محسوس بیانیہ ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اک نئی ریاست کی تشکیل کے لئے مخلصین ہر جہت سے اپنی استعداد کے مطابق اسے خوب سے خوب بنانے کے لئے سربکف نظر آئے۔ انہی مخلصین میں شہرِ اوکاڑہ کا ایک معروف نام حضرت صوفی محمد حنیف نقشبندی کا تھا۔ نام و نمود، تصنع بناوٹ سے کوسوں دور، عمل پیہم جن کا وطیرہ اور جہدِ مسلسل جن کی پہچان تھی۔ راست گوئی ان کا شعار اور عزیمت ان کا کردار رہا۔ حضرت صوفی صاحب 1936ء میں اوکاڑہ کے نواح میں ایک بستی رینالہ خورد میں پیدا ہوئے ابھی پانچویں کلاس میں تھے کہ پاکستان معرض وجود میں آگیا ۔ آپ اپنے خاندان کے ساتھ اوکاڑہ میں مستقل سکونت پذیر ہوئے۔ آپ کے والد ماجد شیخ حاجی غلام محمد، حضرت شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ سکول میں مڈل تک تعلیم کے بعد آپ نے ترجمہ قرآن پاک حضرت مولانا علم الدین فرید کوٹی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھا۔ اس کے بعد دورہ تفسیر شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی سے کیا اور کماحقہ علوم دینیہ میں ان سے استفادہ کیا۔ 1950ء کے ابتدائی سالوں میں ایک بار حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری المعروف قبلہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ اوکاڑہ میں خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تشریف لائے تو اس موقع پر صوفی صاحب نے ان سے بیعت ارادت حاصل کی اور یوں سلسلہ نقشبندیہ میں داخل ہوئے، انھی دنوں 1951ء میں حضرت گنج کرم پیر سید محمد اسماعیل شا ہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اوکاڑہ کے قریب ایک گاؤں پکا چک میں مستقل تشریف لے آئے حضرت صاحب کی برکت سے یہ علاقہ حضرت کرماں والا بن گیا۔ حضرت صوفی صاحب کو حضرت گنج کرم رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے لے کر ان کے وصال 1966ء تک پندرہ برس بھرپور اکتساب فیض کے مواقع ملے۔ ہفتے میں دو سے تین مرتبہ ضرور حضرت صاحب کو ملنے جاتے آنے والوں کی فکری، روحانی، علمی، سماجی مشکلات کا حل پیش کرنے کے ساتھ ان کی اخلاقی و دینی تربیت کرنا، ان کو باعزت طریقے سے کھانا پیش کرنا دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنا حضرت صاحب کی عادت مبارکہ تھی۔ صوفی صاحب اکثر فرماتے کہ بے شمار مواقع ایسے آئے کہ کئی معاملات، ضروریات اور خواہشات اپنے دل میں لئے حضرت صاحب کے پاس جاتے کہ آج ان کے بارے میں بات کریں گے لیکن جوں ہی حضرت صاحب کے پاس پہنچتے تو بیٹھتے ہی حضرت صاحب نہ صرف ہمارے قلب و ذہن میں موجود سوالات بیان کرتے بلکہ ان کے نفیس جوابات بھی بیان کرتے۔ یہ انہی اللہ والوں کی صحبتوں کا فیض تھا کہ جب 1953ء میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو صوفی صاحب نے نوجوانی کے عالم میں مجاہدانہ کردار ادا کیا اور ڈسٹرکٹ جیل ساہیوال میں تین ماہ خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کے ساتھ پابند سلاسل رہے اور اسی طرح کا کردار 1974ء میں ادا کیا۔ شہر اوکاڑہ کی معروف مساجد جامع مسجد غلہ منڈی اور جامع مسجد غوثیہ کچہری بازار کے بانیان میں سے تھے اور تاوقت آخر ہر جہت سے ان مساجد کی خدمت کرتے رہے، بالخصوص جامع مسجد غلہ منڈی جس کا سنگ بنیاد آپ کے شیخ حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے رکھا تھا وہاں صوفی صاحب نے اٹھارہ برس قبل از فجر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے پیش کیے۔ اس طرح جامعہ حنفیہ اشرف المدارس کے قیام سے تاوقت آخر ہر طرح سے خدمت کرتے رہے۔ سیاسی طور پر آپ جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ رہے اور ضلع اوکاڑہ کے نائب صدر اور دیگر ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے ۔ بے شمار لوگ بالخصوص کالجز اور مدارس کے طلبہ آپ کی تحریک پر جماعت اہل سنت، جمیعت علمائے پاکستان اور انجمن طلبائے اسلام کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ جے یو پی اور اہل سنت کے اکابرین سے خوب رابطے رہے بالخصوص حضرت خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی سے آپ کے دیرینہ تعلقات بڑی طویل رفاقتوں پر محیط تھے۔ سماجی معاملات میں رواداری ان کا وصف تھا جبکہ فکری و اعتقادی طو ر پر ان کی پختگی مثالی تھی۔ صوفی صاحب دور جدید میں قرون اولیٰ کا کوئی مجذوب دکھائی دیتے تھے جو اپنی دھن میں منہج اسلاف پر استقامت اور حق گوئی کے ساتھ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ادا کر گئے۔ سادگی و اخلاص کا یہ پیکر 14 جو ن 2005 کو عازم دار بقا ہوا۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے۔