مکڑی کے جالے میں دبکا ہوا بھارت گزشتہ تین عشروںکے دوران ملت اسلامیہ کشمیر کے استقامتی محاذ سے پے در پے شکست کھاتا رہا ہے اوراسلامیان کشمیرکے سامنے اب وہ اپنی ناتوانیوں اور شدید کمزوریوں کو’’ میڈیاوار، نفسیاتی جنگ‘‘ اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے بھارت کی طرف سے خطے کے مسلمانوں بالخصوص اسلامیان کشمیرکے خلاف خوفناک میڈیاوارجاری ہے۔ کہاجاتاہے کہ سارے مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے دہشت گرد ضرورمسلمان ہیں۔بھارت کاسنگھ پریوار کازرخریدبھارتی میڈیامسلمانوں کے خلاف اس مکروہ مہم اور نفسیاتی جنگ میں شب وروز مصروف ہے۔آرایس ایس بھارتی میڈیاکے ذریعے اس موضوع پہ اتنے تکرار اور ترتیب کے ساتھ لگا تار پرچار کررہاہے کہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مسلمان بھی مطعون ہوجائیں دوئم یہ بات بھارت کی اگلی نسل کی رگ وپے میں پوری طرح سرائیت کرجائے کہ مسلمان ہندئووں کاازلی اورابدی دشمن ہے۔چونکہ جموںو کشمیرمیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکلی طورپربھارت کے کنٹرول میں ہے ۔ اس لئے بھارت کے ’’میڈیاوار‘‘ کواینٹ کاجواب پتھرسے نہیں مل پارہاتھالیکن جب سے کشمیرمیں فورجی انٹرنیٹ سروس شروع ہوئی تونوجوانان کشمیرنے تحریک آزادی کی ترویج کے لئے اسے استعمال کرناشروع کیا۔اس کی اہم مثال برہان مظفر وانی شہید ہے کہ جس نے سوشل میڈیاکابھر پوراستعمال کرکے کشمیرکی تحریک آزادی کومہمیزدی ۔ نوجوانان کشمیرکاسوشل میڈیاکے ذریعے تحریک آزادی کشمیرکی ترویج پربھارت نے منہ بسورابالآخرکشمیرمیں انٹرنیٹ پرپابندی عائد کر دی۔ سوال یہ ہے آخربھارت کایہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسان کو اتنا ترقی یافتہ بنا دیا ہے کہ انسان اپنا وقت ضائع کئے بغیر کہیں بھی بیٹھے پوری دنیا سے سوشل میڈیا کے ذریعے میل جول رکھ سکتا ہے۔سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل ایس ایم ایس اور دیگر ہیں جن کے ذریعے خبریں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر کاروباری افراد معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک اور ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس، ڈگ اور دیگر سے جڑے ہوئے ہیں۔محض چندبرسوں سے سوشل میڈیا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ تیزی سے مقبول ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا سوشل میڈیا سے منسلک ہونا ہے۔ اس الگ میڈیا میں خبروں اور معلومات کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ معلومات کا ذخیرہ آپ تک خود بخود بذریعہ ای میل اور انٹرنیٹ بلاگ پوسٹس پہنچ جاتا ہے، آپ کو صرف کسی بھی بلاگ یا سائٹ میں اندراج کی ضرورت ہے۔ ایک خبر کو دنیاتک پہنچانے کے لئے کسی بھی سوشل سائٹ میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے پھر یہ خود بخود ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جائے گی۔ سوشل میڈیا جہاںتجارتی، پیشہ وارانہ اور ذاتی برینڈ سازی کیلئے زبردست امکانات رکھتا ہے۔ وہیں انقلابی اور آزادی کی تحریکوں میںسوشل میڈیاکااستعمال نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ تحریکوں کوبام عروج تک پہنچانے اوراوج کمال تک لے جانے کابہترین وسیلہ اورآسان اورمفت ذریعہ ہے ۔تحریکوں کے اراکین سوشل میڈیا کے ذریعہ نہ صرف ہمہ وقت اپنے عوام کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں بلکہ پوری دنیاتک اپنی آواز اوراپنے پیغام کوپہنچاسکتے ہیں ۔آج جبکہ دنیا بھرکے بڑے بڑے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہائوسز دنیابھرکے مظلوم مسلمانوں کی آواز بننے کے بجائے دنیاکے ظالم حکمرانوں کاآلہ جنگ بنے ہوئے ہیں تو ایسے عالم میں انٹرنیٹ،سوشل میڈیاکے ذریعہ سے پوری دنیاتک اپنی بپتااورظالم اورسفاک حکمرانوںکی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کونہایت آسانی کے ساتھ پہنچایاجاسکتاہے ۔ مظلوم قوموں کواب اپنی بپتاسنانے کے لئے کسی میڈیااینکرپرسن،کسی اخبار کے ایڈیٹر کی منت نہیں کرناپڑتی ہے ۔ ماضی میں ٹی وی ، اخبارات و رسالوں میں مظلوم قوموں کاپیغام نشر اورشائع ہوا کرتا تھا۔ مگر اب اکثر میڈیاہائوسزان سے منہ موڑ چکے ہیں۔کیونکہ آج کے نجی میڈیاچینل بھی پرائیویٹ کالجز اورسکولزکی طرح ہی محض کاروباری ادارے بن چکے ہیں اور اگراب بھی کوئی میڈیاچینل مظلومین کی ترجمانی کرنے کی کوشش کرتاہے تو ایک محدود حدتک ہی کرپاتاہے۔ لیکن دلبرداشتہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ایک دروازہ بندہوجاتاہے تواللہ تعالی سودروازے کھول دیتاہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر تحریکوں کاابلاغی کام سستا ہے اورتحریکوں کاپیغام اوروہ جو بھی معلومات دیناچاہتی ہیں وہ دنیاوالوں تک جلد پہنچ جاتی ہیں۔ اردوتوہے ہی ہماری زبان اوراس میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ سوشل میڈیا کے باعث اردو زبان کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے۔ مگرچونکہ کشمیرکی تحریک آزادی کے اراکین نے پوری دنیاسے مخاطب ہوناہوتاہے تواس لئے وہ انگلش کواستعمال میں لائیں تاکہ پوری دنیامیں کروڑوں لوگ اس پیغام کوپڑھ سکیں۔ ٹیکنالوجی کے انقلاب کے ساتھ ساتھ بلاگنگ کے خدوخال بھی بدل چکے ہیں۔ شروع میں کسی بلاگ کا آغاز ہونا اور فعال رہنا ہی غنیمت جانا جاتا تھا۔ لیکن اب جب کوئی فرد ایک تحریکی رکن کے اعتبارسے بلاگرز بن جاتاہے توپھراس ا سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے بلاگ پر ایسی فکر انگیز اور معلوما ت فراہم کریں کہ لوگ انکے بلاگ کومعتبرسمجھیں اورانکی تحر یروں پریقین کرلیں ۔ آج سے تقریبا چار پانچ سال پہلے کمپیوٹر سافٹ ویئرز کو خریدنے کے لئے یا تو سی ڈیز، ڈی وی ڈیز خریدنی پڑتی تھیں یاپھر انٹرنیٹ پر ان کو ڈھونڈنا پڑتا تھا جو کہ وقت ضائع کرتا تھا۔ اب تقریبا زیادہ تر سافٹ ویئر بلاگرز ڈھونڈ کر کہیں نہ کہیں پوسٹ کر دیتے ہیں۔ جس سے آسانی پیدا ہو گئی ہے۔بلاگنگ کو فروغ دینے اور اس کی (credibility)بحال کرنے کے لیے ایک پائیدار بلاگ ہوسٹنگ سروس بہت ضروری ہے۔ بہرکیف!سوشل میڈیاکشمیراورفلسطین کی تحاریک آزادی کے لئے نہایت مفید ہے۔