تحریک آزادی کی تاریخ نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ سرکاری اور درباری تاریخ نویسوں نے تاریخ کے نام پر تاریخی گھپلے کیے ہیں ،ہمارے شہر خان پور کوتاریخ آزادی میں نمایاں مقام حاصل ہے مگر تاریخ کی کسی کتاب یا نصاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔خان پور کو تحریک آزادی کا مرکز ہونے کے اعزاز کے ساتھ یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلے سرائیکی وسیب کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی اور یہاں کے ایک سپوت ریاض ہاشمی مرحوم نے بہاول پور صوبے کیلئے بہت کام کیا اور بعد ازاں بہاول پور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ کا روپ دیکر سرائیکی صوبے کی تحریک میں شامل کر دیا ‘ اسی طرح خان پور کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلا اخبار ڈٖینھ وار ’’جھوک‘‘ سرائیکی شروع ہوا ۔ اخبار کے مدیران نے سرائیکی زبان ‘ ادب اور سرائیکی تحریک کیلئے جس طرح اپنا تن من دھن حتیٰ کہ اپنی زندگی تک وقف کر کے جو قربانی دی ہے وہ محتاج تعارف نہیں‘ اسی طرح دوسرا سرائیکی اخبار ’’ڈٖینھ وار ’’سجاک‘‘ جس شخصیت نے شروع کیا ان کا نام ارشاد امین ہے اور ان کا تعلق بھی خان پور کے قصبے چاچڑاں شریف سے ہے ۔ خان پور پہلے ضلع تھا اور خان پور کو انگریزوں نے خان پور چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر بہت بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا تھا مگر سیاسی مصلحتوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور خان پور کو ضلع سے تحصیل بنا دیا گیا۔ خان پور کی تجارت براہ راست دہلی سے تھی اور خان پور کے کسی ایک سیٹھ کا ’’ٹیبھوں‘‘ آج کا ٹریول چیک تھا اور ایک ’’ٹیبھوں‘‘ کے دریعے دہلی سے لاکھوں کا مال مل جاتا تھا ۔ خان پور سے ریلوے ٹرین براستہ سمہ سٹہ بہاولنگر امروکہ وبٹھنڈہ دہلی تک جاتی تھی ‘ خان پور کے لوگ بہت خوشحال اور مالدار تھے مگر قیام پاکستان کے بعد خان پور سے سب کچھ چھین لیا گیا آج خان پور کے امیر لوگ کراچی میں مزدوری کررہے ہیں اور یہاں کی عورتیں کراچی کے سیٹھوں کے گھر ’’ماسیاں‘‘ بنی ہوئی ہیں۔ خان پورکے لوگوں کو اپنی عظمت رفتہ بحال کرانے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی اور انہیں اپنی قوت بازو پر انحصار کرنا ہوگا۔ خان پور سرائیکی وسیب کا زرخیز اور مردم خیز خطہ ہے ‘ اس خطے نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ جیسی عظیم ہستی کو جنم دیا ‘ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا سب سے بڑا مرکز بھی خان پور تھا اور تحریک آزادی کے عظیم ہیرو مولانا عبید اللہ سندھی نے یہیں سے انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کی ‘ حضرت سندھی آج اسودہ خاک بھی خان پور میں ہی ہیں۔ خان پور کی سر زمین نے عظیم روحانی پیشوا حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ ‘ مولانا عبدالہادی ‘ مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ‘ حضرت سراج اہلسنت مفتی واحد بخش ‘ مولانا عبداللہ درخواستی ‘ مولانا عبدالشکور دین پوری ‘ مولانا یار محمد دھریجہ ‘ بابا امان اللہ دھریجہ ‘ مولانا عبدالغنی جاجروی ‘ مولانا خورشید احمد فیضی ‘ خواجہ محمد یار فریدی ‘ خواجہ دُر محمد کوریجہ ‘ حضرت جیٹھہ بھٹہ سرکارؒ ‘ حضرت شیخ عبدالستار ‘ حضرت بابا رنگیلا شاہ ‘ مغل بادشاہ کے مشیر بیربل۔ اسی طرح دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشاہیر کوخان پور کی ماں دھرتی نے جنم دیا ۔ گزشتہ روز جواں سال ادیب و ماہر تعلیم ایوب دھریجہ کی یاد میں تقریب منعقد کی گئی ،اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیاگیا ،مقررین نے اس موقع پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایوب دھریجہ کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ یونیورسٹی میں سرائیکی مضامین شروع ہوچکے ہیں مگر طالب علم بہت پریشان ہیں اسی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے دھریجہ ادبی اکیڈمی میں ایم اے سرائیکی سے متعلقہ مضامین اکٹھے کیے اور بہت سے طالب علموں کو وہ سرائیکی پڑھاتے رہے آج دھریجہ نگر پورے وسیب میں واحد بستی ہے جہاں سرائیکی ماسٹر ہولڈرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اس وقت صرف ایک بستی دھریجہ نگر میں 15کے قریب میل فی میل ایم اے سرائیکی ہیں ،یہ سب کچھ ایوب دھریجہ کی کوششوں کے باعث ہوا ۔یہ الگ بات ہے کہ ان 15میں سے کسی ایک کو بھی ملازمت نہیں ملی اور ملازمت نہ ملنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آگے مشکلات پیدا ہورہی ہیں جسے بھی سرائیکی تعلیم کے بارے میں کہا جائے وہ کہتا ہے کیا پہلے والوں کو ملازمت ملی ہے ؟ بہرحال ایوب دھریجہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ بستی میں گریجویشن کرنیوالوں کی لسٹ بناتے چاہے وہ میل ہوں یا فی میل پھر ان کے گھروں میں جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ آپ ایم اے سرائیکی کا داخلہ بھیجیں ،کتابوں کی مدد دھریجہ ادبی اکیڈمی کریگی اور خدانخواستہ داخلے کا بھی مسئلہ ہوا تو میں اپنی جیب سے داخلہ بھیجوں گا اسی بناء پر لوگوں میں سرائیکی پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ بزم ادراک کی طرف سے معروف سرائیکی شاعر سئیں قیس فریدی کا سرائیکی مجموعہ کلام’’گھاگھر‘‘کے نام سے شائع ہوا تو بزم ادراک کے صدر پروفیسر منیر ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں جو کچھ ہوں ایوب احمد دھریجہ کی وجہ سے ہوں ،آج بزم ادراک جتنا کام کررہی ہے یہ انہی کا لگا ہوا پودا ہے ،انہوں نے ہی ہمیں ادب کی دنیا میں چلنا سکھایا ،انہی کے احسانات کا نہ صرف خان پور بلکہ پورا وسیب شکر گزار ہے،وہ سرائیکی پروگراموں اور سرائیکی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔دھریجہ نگر میں جتنے بھی ادبی ،ثقافتی اور سیاسی پروگرام ہوتے ان میں سب سے اہم کردار ایوب دھریجہ کا تھا ،ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہو ںنے دھریجہ پبلک سکول دھریجہ نگر میں اپنے بھانجے پروفیسر نذیر احمد بزمی کے ساتھ ملکر سب سے پہلے سرائیکی تعلیم کا آغاز کیا ،سرائیکی قاعدے پرنٹ کرائے اور ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر ان کو عام کیا۔آج اسی دھریجہ پبلک سکول کے بہت سے طالب علم ایم فل کر رہے ہیں ۔ آج خان پور کے عوام کا مطالبہ ہے کہ منظو ر شد ہ خانپور کیڈٹ کالج پر فوری مکمل کرانے کے ساتھ خانپور انجنئیرنگ کالج کی بھی منظوری دی جائے اور سرکاری تعلیمی اداروںمیں اپر پنجاب کے برابر تعلیمی سہولتیں مہیا کی جائیںنیز خانپور کے بوائز اورگرلز کالجوں میں سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ تعینات کیے جائیں ۔اسی طرح محکمہ تعلیم لاہور کو سرائیکی وسیب کے جن کالجوں کی طرف سے سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ کی ڈیمانڈ کی گئی ہے اسے فی الفور پوراکیا جائے ۔خانپور شہر میں صحت و صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر فوری توجہ مرکوز کی جائے ۔سیوریج سسٹم کو بحال کیا جائے۔اور خانپور شہر کے کی بہتری کے لیے بھاری پیکیج دیا جائے ۔ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا خاتمہ کیا جائے ۔شکارکی پابندی کے قانو ن کو مؤثر بنایا جائے۔ اس کے علاوہ خان پور کے عوام کو اپنے گھروں میں روزگار فراہم کرنے کیلئے یہاں دیگر شہروں کی طرح صنعتی زون بنایا جائے تاکہ تحریک آزادی کے مرکز خان پور کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ ممکن ہو سکے۔