سونامی کے ذریعے تبدیلی لانے والی حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد سے خود ایک کے بعد ایک سونامی کا سامنا ہے۔ اقتصادی بحران کے سونامی نے تحریک انصاف کی ارسطو دماغ کابینہ کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا تو معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ٹیم باہر سے امپورٹ کرنا پڑی۔ احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا جنون آزادی مارچ اور دھرنے پر منتج ہوا تو انہی چور ڈاکوئوں سے مذاکرات کے لئے پائوں میں گرنا پڑا۔ شاید ایسی ہی کسی صورتحال کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا… مرعوب ہو گئے ہیں ولایت سے شیخ جی اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب کو کسی کو نہ چھوڑنے کے دعویدار خود لوٹنے والے کو لوٹی ہوئی دولت تک چھوڑ کر آنے پر آمادہ ہوئے۔ یہ بلا ابھی ٹلی نہ تھی کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خیال نے دن میں تارے دکھا دیئے۔ ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن ۔منظوری کے بعد کابینہ سے دوسری منظوری، عدالت نے ایک بھی منظور نہ کیا۔ اس بار بھی جب کارکردگی کو انصاف کے ترازو میں تولنے کی باری آئی۔ آغا اکبر آبادی کے بقول پتہ چلا ہمیشہ جو دم بھرتے تھے دوستی کا وہی دشمن جاں ہمارے ہوئے ہیں بھلا غیر سے شکایت کیا ہوتی اپنے ہی وزیر قانون کو اپنے کئے کی صفائی کے لئے استعفیٰ دے کر کٹہرے میں آنا پڑا۔ معاملہ حساس تھا عدالت نے بھی قانون کے بجائے انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چھ ماہ کی مدت دے کر سقم دور کرنے کی ہدایت کر دی۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب کی بار بھی حکومت کے افلاطون اس سقم کو قانون بنا کر دور کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ کمزوری آئینی نوعیت کی ہے۔ قانون یا آئین میں ترمیم کریں ہر دو صورتوں میں حکومت کو ایک بار پھر اسی عطار کے لڑکے کے در پہ دوا لینے جانا پڑے گا جس کو تمام بیماریوں کی جڑ قرار دیا جاتا رہا تھا۔ ایک اسیر کے قفس کا تالا دھرنے نے کھلوایا دوسرے کا کھولے بغیر یہ بلا ٹلنے والی نہیں۔ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی مجبوری نہ بھی ہو تب بھی نیا قانون سینٹ سے منظور کروانے کے لئے احتساب کے لئے ہاتھوں سے دی گئی گرہیں اب تبدیلی سرکار کو آنکھوں سے کھولنا پڑیں گی۔ تحریک انصاف کے کرتا دھرتا بھی اب دبے لفظوں میں احتساب کے خواب ہونے کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست گندا ہے پر دھندا ہے! کی مجبوری بتائی جا رہی ہے مگر یہ تو سیاست دانوں کا موقف ہے۔ ایک رائے میدان سے باہر کھیل دیکھنے والے تماشائیوں کی بھی ہے جو ہر شاٹ پر نظر ہی نہیں رکھے ہوئے بلکہ ری پلے دیکھنے کی سہولت بھی رکھتے ہیں۔ اس معاملے کو یہ حلقے پنجابی محاورے ’’مجاں مجاں دیاں بھیناں ہوندیاں نیں‘‘ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سیاست کی بساط پر پہلا جھٹکا میمو گیٹ کی صورت میں آصف علی زرداری نے دیا تھا، دیوار کو دوسرا دھکا میاں نواز شریف نے ڈان لیکس کے ذریعے دیا۔ اب خان صاحب نے اپنے حصے کا قرض ادا کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے اور سیاست دانوں نے اس بار بھی ماضی کی طرح اپنے ہونے کا احساس دلایا ہے نہیں تو بھلا ایسے بھی ہوتا ہے کہ وزیراعظم آفس کے تجربہ کار افسروں اور وزارت قانون کے اعلیٰ دماغوں کو یہ علم نہ ہو کہ آئینی پوزیشن کیا ہے اور نوٹیفکیشن کیسے کئے جاتے ہیں، کون کرتا ہے۔ کابینہ سے منظوری کیسے لی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر غلطی ایک بار ہو دوبارہ ہو سکتی ہے تیسری بار تو سیدھے لفظوں میں کہا گیا ہم نہیں کر سکتے ہماری رہنمائی کریں جس پر معزز جج صاحبان بھی تلملا اٹھے کہ ہمارے کندھوں پر رکھ کر کیوں چلانا چاہتے ہیں جائیں اپنا کام خود کریں۔ چھ ماہ میں قانون بنائیں اور معاملہ ڈھنگ سے نمٹا دیں۔ ان حلقوں کا ماننا ہے کہ اس بار وزیراعظم عمران خان کا بھی مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو والا معاملہ ہے۔ معصوم بن کر تماشہ دیکھتے رہے اور اب شاید کچھ پیادوں کو قربان کرکے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ اس بار سیاست اور عبادت دونوں ہی ساتھ ساتھ ہو رہی ہیں۔ کیا کیا جائے کہ جمہوریت کی بقا حکومت کے پانچ سال اقتدار کی مدت پوری کرنے میں ہے۔ اپوزیشن نے پیالی میں طوفان برپا کیا ہے اس کی وجہ حکمرانوں کی نااہلی ہے نا منشا حکومت کو گرانا ہے۔ مقصد تو احتساب کی راہ پر بھٹکے ہوئوں کو میدان سیاست میں کھینچ کر واپس لانا ہے اور یہ عمل اب چھ ماہ میں شروع ہونا طے ہو چکا۔ آغا اکبر آبادی نے کہا تھا کیسے کہے دیتی ہیں صاف آنکھیں تمہاری کسی غیر سے کچھ اشارے ہوتے ہیں حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اگر ابھی تک نہیں ہوئے تو مستقبل قریب میں غیر سے کچھ اشارے بھی ہو جائیں گے اور پھر جنرل مشرف کو بھی تو دس سال میں مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ ہونے کے بعد این آر او میں ہی قومی مفاد نظر آیا تھا۔ وزیراعظم تو اعتراف کر چکے ہیں کہ اس معاملے کے پیچھے ملک دشمن عناصر اور اندرونی مافیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم نے وضاحت نہیں کی کہ یہ اندرونی مافیا اپوزیشن والا اندرونی ہے یا حکومتی بنچوں والا۔ چودھری شجاعت تو پہلے ہی انکشاف کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کی احتساب کی بکری کو دودھ دینا ہے، بہتر ہے مینگنیاں ڈال کر نہ دے۔ عمران خان چودھری شجاعت کے مشورے کے بعد یقیناً یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے ایسی حکومت سے تو اپوزیشن میں مزا تھا۔ بقول شاعر تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا مزے اب وہ کہاں باقی رہے میاں بیوی ہو کر