عمران خان اقتدار کی جس کرسی پر براجمان ہیں یہ ق لیگ ‘متحدہ پاکستان‘ جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کی اینٹوں کے سہارے کھڑی ہے۔ کپتان جب بھی تبدیلی کے لئے حرکت میں آتا ہے کرسی کی کوئی اینٹ اپنی جگہ سے سرک جاتی ہے۔ اس ڈانواں ڈول صورتحال میں تحریک انصاف تبدیلی کے جنوں کو وزارتوں اور بیورو کریسی میں تبدیلیاں کر کے ہی ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اقتدار کے دو سال میں دودرجن وزیروں کے قلمدان تبدیل ہوئے یا پھر وزیر ہی بدل دیا گیا۔ تبدیلیوں کے اس جھکڑ نے سب سے زیادہ وزارت خزانہ اور وزارت اطلاعات کو متاثر کیا ہے۔ جہاں بالترتیب تین اور چار بار چہرے بدلے گئے ہیں۔ ایف بی آر میں شبر زیدی آئے بلا شبہ انہوں نے معیشت بالخصوص محصولات اکٹھا کرنے میں اپنی مہارت بھی دکھائی، ان کی آمد کے بعد ایف بی آر میں درجنوں نہیں سینکڑوں تبادلے ہوئے ان کے جانے کے بعد 380افسران کے تبادلے کی فہرست ایک بار پھر تیار بتائی جا رہی ہے۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ عمران خاں اور ان کی ٹیم یہ سمجھنے سے عاجز ہے کہ پہلی بار جو تبادلے ہوئے وہ درست تھے یا جو شبر زیدی کے جانے کے بعد اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے یہ ٹھیک ہے؟ کپتان نے بیورو کریسی میں تبدیلی کا پہیہ اس زور اور بغیر حکمت عملی سے گھمایا ہے کہ گھوم گھما کر تبدیلی کا جھنڈا پھر انہی افسروں کے ہاتھ میں پہنچ گیا ہے جن پر نظام کی تباہی کا الزام لگا کر چھینا گیا تھا۔نشور واحدی نے کہا تھا: اسی کو زندگی کا ساز دے کر مطمئن ہوں میں وہ حسن جس کو حسن بے ثبات کہتے آئے ہیں اہم بات یہ ہے کہ حسن کی بے ثباتی کا معاملہ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں کو ہی درپیش ہے جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر چل رہی ہیں۔2018ء کا الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان کا یہ خیال ممکن ہے درست ہو کہ پنجاب پر حکومت وفاق میں پرسکون حکمرانی کے لئے ناگزیر ہے اور اسی لئے کپتان نے پنجاب پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے کمزور وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا اور ہر ہفتے لاہور پہنچ کر معاملات خود دیکھنے لگے۔ عثمان بزدار نے کارکردگی دکھانے کے لئے بیورو کریسی میں اپنے وفاداروں اور اہل افسروں کو اہم عہدوں کے لئے منتخب کیا مگر اتحادی ق لیگ نے ایک نہ چلنے دی خود ہی بائولنگ اور خود ہی فیلڈنگ کا تجربہ زیادہ کامیاب نہ رہا تو وزیر اعلیٰ کو سہارا دینے کے لئے کپتان نے اپنے قابل اعتماد اعظم سلیمان کو پنجاب میں بطور چیف سیکرٹری اتارا۔ انہوں نے آتے ہی تبادلوں پر زور آزمائی شروع کی اور چودھریوں کے ساتھ عثمان بزدار کے وفاداروں کو بھی کھڈے لائن لگا دیا ۔وفاق کی طرح پنجاب میں بھی روزانہ کی بنیاد پر تبادلے ہونا شروع ہوئے مگر کوئی تبدیلی آئی تو وہ یہ تھی کہ پہلے یہ تاثر تھا کہ عملی طور پر وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی ہیں توبعد میں یہ محسوس کیا جانے لگا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری ہی وزیر اعلیٰ کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ کمزور وزیر اعلیٰ اور تگڑے چیف سیکرٹری کا تجربہ بھی کام نہ آیا۔ اعظم سلیمان نے مختصر مگر زور دار اننگز کھیلی اور اب ان کے بعد نئے چیف سیکرٹری جواد رفیق نے وزیر اعلیٰ سے مل کر نئی ٹیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف اپنے اقتدار کے دو سال مکمل کرنے کو ہے مگر ابھی تک حکومت صفیں سیدھی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ وفاق اور پنجاب میں افسروں کو تبدیل کر کے تبدیلی کا شوق پورا کیا جا رہاہے۔ شنید ہے کہ نئے چیف سیکرٹری کی آمد کے بعد پنجاب سے چھ سات سینئر بیورو کریٹس کو سرنڈر کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ نئے چیف سیکرٹری کے بعد تبدیلی کا سونامی ایک بار پھر پنجاب کی بیورو کریسی سے ٹکرائے گا۔ عثمان بزدار ایک بار پھر اہل دیانتدار افسروں کی تلاش میں ہیں۔وزیر علی صبا لکھنوی نے کہا ہے: تری تلاش میں مہ کی طرح میں پھرتا ہوں کہاں تو رات کو اے آفتاب رہتا ہے وسیم اکرم پلس رات کو آفتاب کی تلاش میں پھرتے ہیں اگر یہ کام دن کو کریں تو وہ دیکھ پائیں گے کہ اعظم سلیمان سے پہلے انہوںنے کچھ افسروں کا انتخاب کیا تھا، جنہوں نے تحریک انصاف کے منشور کے مطابق تبدیلی کی سعی بھی کی تھی وہی ٹیم عثمان بزدار کی دست و بازو بن سکتی ہے۔ بزدار پنجاب میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ریونیو‘پولیس‘ تعلیم اور صحت کی افسر شاہی کا رویہ تبدیل کر دیں۔18ماہ میں چار آئی جی تبدیل ہوئے مگر پولیس کا طرز عمل وہی ہے۔ ریونیو جوں کا توں صحت کے افسران ٹس سے مس نہیں ہوئے تعلیم میں تبدیلی کے کچھ آثار بہرحال نمودار ہوئے ہیں۔ لاہور پنجاب کا چہرہ اور پاکستان کا دل ہے اگر لاہور میں تبدیلی آتی ہے تو چہرہ اور دل دونوں صاف ہوں گے۔ لاہور کی تبدیلی میں ایل ڈی اے کا کلیدی کردار ہے، اعظم سلیمان نے اپنی مختصر مدت میں ایل ڈی اے کے دو ڈی جی تبدیل کئے عثمان بزدار کا انتخاب عثمان معظم تھا جو اعظم سلیمان کی تبدیلیوں کی نذر ہوا ۔اطلاعات کے مطابق کوشش کے باوجود عثمان معظم کے خلاف بدعنوانی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ وسیم اکرم پلس اگر پرانی ٹیم کی بحالی کے وقت عثمان معظم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو شاید ان کے ساتھ بھی انصاف ہو پائے۔فی الوقت تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ تبدیلی کا سونامی لانے کی دعویدار تحریک انصاف ابھی تک تبدیلی لا سکی نہ اپنے چاہنے والوں اور خیر اندیشوں کے ساتھ انصاف کر سکی ہے پھر بھی امید باقی ہے شکیب جلالی نے کہا تھا: آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر