کئی برسوں سے لگاتار کشمیری مسلمان تحریک آزادی کشمیرکے نامورہیروزافضل گورواورمقبول بٹ کی یاد میں 9تا11،اپریل کوعالمی ضمیرکوجھنجوڑنے کے لئے کشمیربندمناتے ہیں ۔کشمیرکاہرشہیدتحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانندہیں کہ جواپنی شہادت سے قبل اپنی لوسے بے شمارچراغ روشن کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج 2021ء تک سرزمین کشمیرپربھارتی جبروقہر کے باعث ایک کے بعد ایک چراغ گل ہوتاچلاجارہاہے لیکن یہ چراغ ختم نہیں ہورہے۔اگرچہ کشمیرکے ہرشہیدکی شہادت کی الگ الگ کہانی ہے لیکن سب ایک ہی عظیم مقصد ’’کشمیرکی آزادی ‘‘کے لئے اپنے جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ چندیوم قبل تہاڑ جیل کے سابق آفیسر سنیل گپتا نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں کہا کہ افضل گورو سے جینے کا حق چھینا گیا۔میں کئی بار ان سے ملااوروہ ہربارکہتے تھے کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔جیل آفیسرگپتاکاکہناہے کہ 9فروری 2013ء کی صبح جب محمد افضل گورو کو چائے پیش کی گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد بتایا گیا کہ اب اپ کی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔تو انکے چہرے پر ایک پراعتماد مسکراہٹ آگئی۔یہ دیکھ کرمیں حیران ہوا ،اور چونک سا گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔اس کے بعد ایک اور حیران کردینے والا نظارہ میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ بغیر کسی خوف وڈر کے پھانسی گھاٹ کی جانب چل پڑے۔ جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آزادی کے متوالوں کو پھانسی کے پھندوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا ہے۔ اپنے آپ کودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کے حکمرانوں نے نہایت غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوںکے جسدخا کی کو رسمی تجہیز و تکفین کے بغیر جیل کے صحن میں ہی دفن کر دیا لیکن اس طرزعمل نے کشمیری مسلمانوں کے سامنے کئی ایسی حقیقتیں واشگاف کردیں ۔ تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زافضل گورواورمقبول بٹ جو بھارتی ظلم و ستم اور درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 11فروری 1984ء کومقبول بٹ کودہلی کی تہاڑ جیل میں جبکہ 9فروری 2013ء کو افضل گرو کوشہیدکردیاگیا۔لیکن ان دونوں عظیم کی شہادتوںنے جیسے حریت کے پروانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔دونوں تعلیم یافتہ اور خوش گفتار شخصیتیں تھیں۔ مقبول بٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ناپاک وجود کے خلاف عملی جدوجہدکی داغ بیل ڈالی اوراسلامیان کشمیرکوبھارتی غلامی سے نکلنے کے لئے مسلح جدوجہدکی راہ دکھادی ۔یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور مقبول بٹ شہید اور ان کے رفقائے کار کا ان تحریکوں سے متاثر ہونا بھی ناگزیر تھا ان ممالک میں الجیریا، فلسطین اور ویت نام وغیرہ شامل تھے۔ڈوگرہ استبدادکے خلاف کشمیری مسلمانوں کے اعلان جہاد کے بعدیہ پہلاموقع تھاکہ جب مقبول بٹ نے12جولائی 1965ء کو میر پور میں محاذ رائے شماری کے ایک پروگرام میں عسکری ونگ کی تجویز اور قرارداد پیش کی تاکہ جلد سے جلد ریاست جموں وکشمیر کو ہندوسامراج کے چنگل سے آزادی دلائی جا سکے۔آپ مقبوضہ کشمیرمیںمئی 1976ء کو ایک ہندوبینک کلرک کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور11فروری 1984ء کی صبح مقبول بٹ شہید کو تختہ دار پر جھلا دیا گیا۔آپ کے آخری الفاظ تھے مجھے پھانسی دے دی جائے گی اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے لوگ اس سچائی اور حق کو جان جائیں گے جن کے لیے میں ان تمام برسوں میں لڑتا رہا اور جس کے لیے میں آج خود کو قربان کر رہا ہوں۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے افضل گورو کی آنکھوں میں کلمۃالحق کی بالادستی اورکشمیرکی آزادی کے خواب تھے اوردل میں شہادت کی آرزو تھی۔لیکن ان کے یہ سارے خواب اس وقت بکھرتے چلے گئے جب افضل گورو کو2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پرمسلح حملے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیااور2013 ء میں دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دارپرچڑھادیاگیا۔افضل گورو کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کا رخ ہی بدل دیا۔ اب ہر کشمیری، کے اندر ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ہے۔ کشمیری بھارتی ریاستی دہشت گردی تو جھیل رہے ہیں لیکن ان کے دلوں میں روشن آزادی کی شمع کو کوئی مودی اورنہ ہی اس کی فوج بجھا نہیں پارہی۔ کشمیریوں کوقتل کرکے دلی کاتخت اس طرح چپ بیٹھ جاتاہے کہ جیسے دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ ۔ مگرایسے میںکشمیری خاموش نہیں رہ سکتے ہیںجب کہ جدوجہدکے ساتھ وفانبھانا ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کشمیریوں کویقین ہے کہ ان کاخون کبھی رائیگان نہیں جائے گااوران کی عظیم قربانیاں ضروررنگ لائیں گی ۔ افضل کی حراستی شہادت ستم رسیدہ اہل کشمیر کے دلوں کوگہرازخم دے گئی تاہم جس وقاراورسکون کے ساتھ افضل نے تختہ دارکوچوما اس سے کشمیر کی نئی نسل کوحوصلہ ملا اورانکی شہادت کشمیریوں کے لئے عہدنوثابت ہوئی ۔ کشمیریوں کاعزم وہمت دیکھ کرقاتل دھنگ ہے کہ جوکٹ مرکربھی حق وانصاف کی علم کو تھامے ہوئے ہیں ۔ زندہ قومیں کبھی ہمت نہیں ہارتیںاوروہ آخری دم تک ظلم اوربربریت کے خلاف صف آراء رہتی ہیں۔واضح رہے کہ آج سے36 برس قبل11 فروری 1984 ء کو کشمیر کے معروف اورعظیم آزادی پسند راہنمامقبول بٹ کو بھی دلی کی تہاڑجیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی اوران کے جسدخاکی کو تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔ محمد مقبول بٹ شہید نے میدان عمل میںاترکر باہمت حریت پسند ہونے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ وہ ایک بہادر اور باہمت حریت پسند تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ افضل گوروکا جوڈیشل اورمقبول بٹ کے حراستی قتل سے بھارت نے اہل کشمیر یوںکویہ پیغام دیا کہ بھارت کی نظروں میں ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیںلیکن کشمیری بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حق کے حصول کے معاملے میں بھارت کے سامنے کبھی سپرانداز نہیں ہونگے۔