ہاتھ میں ہمارے بزرگ اور شائد سب سے سینئر صحافی ریاض احمد چودھری کی تصنیف ’’تحریک پاکستان…چند یادیں…کچھ ملاقاتیں‘‘ ہے۔370صفحات کی کتاب بہت خاص ہے۔پہلا حوالہ یہ کہ مصنف تحریک آزادی کے بھرپور دور میں سرگرم تھے۔مارچ 1940ء میں قرار داد لاہور کی منظوری والے اجتماع میں اپنے دادا کے ساتھ شریک ہوئے‘ قائد اعظم کی زیارت کی۔بڑی بڑی شخصیات کو دیکھا‘ ان سے ملاقات کی۔دوسری وجہ یہ کہ ریاض احمد چودھری عہد موجود میں ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی یادداشت اور جسمانی مستعدی قابل رشک ہے۔92برس کی عمر میں وہ بزم اقبال کے معاملات بہترین انداز میں چلا رہے ہیں۔وقفے وقفے سے کوئی عمدہ کتاب شائع کرتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ پڑھنے والوں تک کتاب پہنچے۔ سیاسی و سماجی رابطوں میں فعال ہیں اور اگر کوئی ان کی یادداشتیں بطور کارکن تحریک پاکستان سننے کا خواہاں ہو تو وہ بیزار نہیں ہوتے۔ تحریک پاکستان کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتی یہ کتاب اس لحاظ سے قاری کی توجہ اور دلچسپی کا دامن پکڑ لیتی ہے کہ مصنف نے اس تاریخی عہد کو ایک خشک بیان کی صورت پیش نہیں کیا بلکہ اپنی ذات‘ اپنے خاندان‘ اپنے شہر اور اپنے احباب کا احوال اس طریقے سے تحریر کیا ہے کہ حقائق پڑھنے والے کو ازبر ہو جاتے ہیں۔اس دوران قومی اہمیت کی حامل تفصیلات سے اچانک ملاقات ہو جاتی ہے۔ ریاض احمد چودھری امرتسر کے قریب واقع گائوں چھاپہ سہوتہ میں پیدا ہوئے۔سن پیدائش 1931ء ہے ۔ان کے والد چودھری فرزند علی نے امرتسر سے میٹرک اچھے نمبروں میں پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے ایف ایس سی پری انجینئرنگ فرسٹ ڈویژن میں کی۔رڑکی کے تھامسن سول انجینئرنگ کالج سے بی ایس سی انجینئرنگ کی۔ریاض احمد چودھری 2بھائی اور ایک بہن ہیں۔آزادی سے پہلے امرتسر‘ لائل پور اور بہاولنگر میں زرعی اراضی تھی۔1935ء میں ریاست بہاولپور میں آبپاشی کا نظام آیا تو دادا چودھری دین محمد اور ان کے سات بہن بھائیوں نے وہاں بھی رقبہ حاصل کر لیا۔چودھری دین محمد 1947ء میں پاکستان آئے تو اس وقت امرتسر‘ لائل پور اور بہاولپور تینوں جگہ ان کی نمبرداری تھی۔ ریاض احمد چودھری بتاتے ہیں کہ امرتسر میں بھولو پہلوان ان کا ہم جماعت تھا۔گاماں پہلوان کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔تب امرتسر میں ٹیلی فون پہنچ چکا تھا‘ گائوں کے قریب نہر اپر باری دوآب پر پن بجلی گھر تھا۔ان کا تعارف بھارت کے تین بار عبوری وزیر اعظم بننے والے گلزاری لال نندا اور سابق بھارتی صدر گیانی ذیل سنگھ سے بخوبی تھا۔ امرتسر شہر میں مسملمانوں کی نسبت ہندوئوں کا رسوخ زیادہ تھا۔ڈاکٹر سیف الدین کچلو،مولانا دائود غزنوی اور مولانا ثنااللہ امرتسری وہاں کے بڑے سیاسی رہنما تھے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری بھی وہاں سے تھے۔جلیانوالہ باغ سانحہ کے بعد امرتسر کی سیاسی حیثیت بڑھ گئی تھی۔ مصنف کے مطابق ان کے دادا ہندوستان کی مسلم سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے اور دل کھول کر سیاسی و مذہبی تحریکوں کی مدد کیا کرتے۔بچپن میں ہی گھر میں سیاسی گفتگو ہوا کرتی۔مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں زیادہ باتیں سنی جاتیں۔ ریاض احمد چودھری کے بقول کلیموں کی تصدیق کے دوران ان کے پانچ چھ سال ضائع ہو گئے تاہم بعد میں اکنامکس میں بی اے آنرز کیا۔انہوں نے بتایا کہ ڈی اے وی کالج کو پہلے قادیانیوں نے الاٹ کرا لیا مگر جب یہ کالج ربوہ گیا تو لاہور والی اس عمارت میں اسلامیہ کالج سول لائنز بن گیا۔ کتاب میں کئی طرح کا تاریخی مواد موجود ہے۔قرار داد لاہور کے موقع پر امرتسر سے جو لوگ آئے ان کے نام موجود ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ اس جلسے کا آنکھوں دیکھا حال میں نے پہلی بار اس قدر تفصیل کے ساتھ پڑھا۔پھر یہ سہولت بھی محسوس ہوئی کہ کتاب پڑھنے کے دوران اگر کوئی سوال اٹھے تو ریاض احمد چودھری تک رسائی ممکن ہے ۔کتاب میں 1946ء کے انتخابات میں امرتسر کے انتخابی معرکے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں‘پھر تعداد کے اعتبار سے اقلیتی گروپ ہونے کے باوجود انگریز کی جانب سے خضر حیات کو حکومت سازی کی پیشکش کے معاملے پر اچھی معلومات دی گئی ہیں۔ قائد اعظم نے سکھ رہنمائوں کو پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی۔امرتسر میں آزادی کے وقت مسلمانوں کے قتل عام کے دل ہلا دینے والے واقعات ہیں۔مصنف نے آزادی کے وقت پاکستان کو درپیش مشکلات کا جزئیات کے ساتھ ذکر کیا ہے۔کلیموں کے معاملے میں کرپشن اور لسانی امتیاز دیکھا گیا۔پنجاب کے مہاجرین کو ضابطہ کے نام پر پریشانی اٹھانا پڑی جبکہ ہندوستان کے باقی کئی حصوں سے آنے والوں کو زبانی دعوے پر زمینیں الاٹ ہوتی رہیں۔ ریاض احمد چودھری نے 1954ء میں روزنامہ تسنیم سے صحافت کا آغاز کیا۔مصطفی صادق‘ سعید ملک اور ارشاد احمد حقانی ان کے ساتھ کام کرتے تھے ۔بعدازاں ممتاز دولتانہ کے اخبار آفاق میں چلے گئے۔1959ء میں روزنامہ امروز ملتان سے شائع ہوا تو مصنف وہاں چلے گئے۔ساتھ پاکستان ٹائمز کے لئے رپورٹنگ کرتے۔کتاب میں پاکستان کے اہم اخبارات کی اشاعت اور وہاں کام کرنے والے نامور صحافیوں کے متعلق دلچسپ معلومات مل جاتی ہیں۔ اپنے کثیر الجہتی میلانات کی وجہ سے ریاض احمد چودھری نے سیاست میں حصہ لیا اور لائل پور یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ایوب خان کو صدر بننے کے لئے دو ووٹوں کی ضرورت تھی اس موقع پر ریاض احمد چودھری نے انکار کر دیا۔انہوں نے 1976ء سے 1984ء تک تحریک آزادی کشمیر کے لئے کام کیا۔ان کا یہ انکشاف بہت اہم ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات الطاف گوہر نے تیار کئے تھے۔ ریاض احمد چودھری نے سینکڑوں شخصیات کے انٹرویو کئے۔علامہ اسد اور مولانا مودودی سے تعلق رہا۔افغان جہاد اور خالصتان تحریک کے کئی گوشے ان کے علم میں ہیں۔یہ کتاب تحریک پاکستان ،اس کے پس منظر اور پاکستان بننے کے بعد ابھرنے والے منظر نامے کا لائق تحسین مرقع ہے۔