دنیا بھر میں مختلف مکتبہ ہائے فکر، مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں، یقینا یہ تمام ایک دوسرے سے اختلاف بھی رکھتے ہیںلیکن انسانی حقوق اور مساوات کی بنیاد پر کچھ اصول ضرور طے شدہ ہیں جن کی بنیاد پر کسی بھی نظریئے کے ماننے والے کو اپنے مذہب، عقائد یا سیاسی نظریئے پر اظہار رائے کا حق اور مخالف نظریہ رکھنے والوں کے نظریئے کے احترام کا حق دیا جاتا ہے۔مگرافسوس مغرب میں جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر اخلاقیات اور اسلام پر بلا جواز تنقید کرتی نظر آتی ہیں اور کچھ ایسے گروہ یا تنظیمیں بھی ہیں جو شعائراللہ اوراسلام کی مقدس ترین نفوس کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتی ہیں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی جان بوجھ کر دل آزادی کرتی ہیں۔ ہالینڈ میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت سیداولین والآخرین ،امام الانبیاء والمرسلین خاتم الرسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ مواد پر مبنی ایک نمائش کا اعلان کیا جا چکاہے۔ برطانوی جریدے( The Week) نے قریب تین ماہ قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی۔جس کے مطابق ہالینڈ کی ایک سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے لیڈر گیرٹ ولڈرز کی ایماء پر اس نمائش کے انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میںگستاخانہ طورپر خاکوں کا مقابلہ کرایا جائے گا۔ یقینا یہ اقدام پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امن کے لئے بھی ایک شدید خطرہ ہے۔ گستاخی کا یہ مقابلہ باقاعدہ ریاستی سطح پر منعقد کیا جارہا ہے۔ ڈچ حکومت نے اس مقابلے کی جیوری یعنی ججز کا اعلان کیا ہے، عجیب بات ہے کہ اس کا ایک جج بوش واسٹن (Bosch Fawsten) ہے جس نے امریکہ میں ایک ہیومن رائٹس ’’امریکن فریڈم ڈیفنس انسٹیٹوٹ‘‘ کے تحت منعقد کردہ ایک نمائش میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔گیرٹ ولڈرز وہی ملعون ہے جس کی تنظیم ہالینڈکے انتخابات میں دوسرے نمبر پر آئی اور اس نے اپوزیشن میں آتے ہی ہالینڈ کے اندر سب سے پہلے جو بل پیش کئے ان میں قرآن مجید کی ترسیل کا روکنا تھا اور گیرٹ ولڈرز نے ہی ہالینڈ میں خواتین کے پردے پر پابندی کا بل پیش کیا ۔کتنابڑاالمیہ ہے کہ دنیا بھر کے مجموعی آبادی کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مذہبی دل آزادی کا سبب ریاستی سطح پر کیا جارہا ہے۔یقینا یہ مسلمانوں کے لئے ایک المناک معاملہ ہے ۔امت مسلمہ کو کم ازکم اس واقعے پر یکجا ہو کر حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کا ثبوت دینا چاہیئے ۔ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں گستاخانہ نمائش کے شیطانی اعلان سے دنیا کی ایک چوتھائی قوم مسلمانوں کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ عالمی اداروں میں سے تادم تحریرکوئی ایک ادارہ بھی سامنے نہیں آیاجو اس شیطانی گستاخانہ نمائش کو رکوانے کیلئے اپنا موثر و بھرپور کردار ادا کرے ۔حتیٰ کہ یو این او بھی نہیں حالانکہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے چارٹرڈ کے مطابق ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے اس شیطانی منصوبے کیخلاف کارروائی کرے۔ چندسال قبل اپنے آپ کوگندمیں لت پت کرتے ہوئے انتہائی شرمناک فلم ’’فتنہ‘‘ کے ملعون ہدایت کار گیرٹ ولڈرزکی جانب سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں سیداولین والآخرین ،امام الانبیاء والمرسلین خاتم الرسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا تھا۔گیرٹ ولڈرز وہی ملعون ہے کہ جس نے قرآن پاک تلف کر دینے کا مطالبہ کر رکھا ہے برطانوی جریدے دی ویک کے مطابق ڈچ حکومت نے اعلان کیا کہ گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا جائے گا۔ ان ملعونین کے لیے کیا آزادی اظہار صرف محبوبِ خدا کی شان میں گستاخی کرنے کا نام ہے؟؟ اگر نہیں تو کیا کبھی اسرائیلی وزیراعظم کا فلسطینی بچوں کو مارنے کے مناظر کا کارٹون بنایا؟؟شامی مسلمانوں پر ڈھائے مظالم کی ترجمانی کی ؟؟برما میں زندہ جلائے اور ذبح کیے جانے والے مسلمانوں کیلئے آواز اٹھائی ؟؟ کشمیر میں حاملہ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹنے پر بھارتی حکومت کیلئے مذمتی الفاظ لکھے گئے؟؟۔ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا ۔عصر موجود میں سوشل میڈیا اکثریت کی رسائی میں ہے تو کیا ہم ایک طاقت بن کر ان گستاخانہ خاکوں کے چھپنے سے پہلے کچھ ایسا کر سکتے ہیں جن سے یہ شیطانی حرکت روکی جا سکے؟ ۔ واضح رہے کہ اس معاملے میں حکومت ،میڈیا یا کسی بھی تیسرے فرد کی طرف دیکھنے کے بجائے خود مجھے اور آپکو آواز بلند کرنی ہے کیونکہ ذرا سوچیے کہ اگر قیامت کے روز سوال ہوا کہ جب سوشل میڈیا پر کائنات کے سردار محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان مبارک میں کھلے عام انتہائی غلیظ باتیں ہونے لگیں تو تم نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا؟۔ تب جواب کیا یہ ہوگا کہ اس وقت مسلمان ممالک کے ٹی وی چینل پرسیاست دانوں کی مدح کی جارہی تھی،پیٹ کے مسائل زیربحث تھے جبکہ فیس بک پر سو لفظی کہانیاں لکھی جا رہی تھیں ، اشعار پوسٹ کیے جا رہے تھے یا یہ کہ اس معاملے میں امہ مسلمہ پرمسلط حکومتوں اورحکمرانوں ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کوبھرپور کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔ شعائر اسلام کے تحفظ کے حوالے سے مسلمان ممالک کی حکومتوں اورحکمرانوں سے کیا رب ذوالجلال نہ پوچھے گاکہ گستاخی کے مرتکبین اوران ممالک میں جہاں مرتکبین نے یہ گنداچھالاتوتم نے کیا،کیا؟اس کے ساتھ ساتھ آج ہم نے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھناہے کہ ہم اس معاملے کو روکنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ جہاد بالقلم کا حصہ بنیں، اس شیطانی مہم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔ یہ ہی وقت ہے کہ جب سوشل میڈیا کو صرف تفریح اور وقت گزاری کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے استعمال کیا جائے کیونکہ ہم تو آج ہیں تو کل نہیں رہیں گے لیکن کسے معلوم کہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کو رکوانے کی ہماری یہ چھوٹی سی کوشش ، ہمارے یہ چند الفاظ ہی ہمارے لیے توشہ آخرت بن جائیں اور روزمحشرکی پیشی کے وقت ہم سر جھکا کر عاجزی سے کہہ سکیں کہ اے ہمارے پروردگار، جب دنیا میں چندملعون تیرے محبوب اولین وآخرین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میںبے ادبی کرنے پر اتر آئے تھے تب ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق حرمت رسول کے لئے جو بن پڑا وہ کیا۔ اے رب تیرے فرشتوں نے میرے نامہ اعمال میں اس کااندارج ضرورکیاہے۔ بہت اچھاہواکہ منگل 28اگست 2018ء کو سینٹ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کر لی گئی،وزیر اعظم عمران خان نے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کر دیا اورکہا ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم آو آئی سی کو بھی اس معاملے پر مشترکہ موقف اختیار کرنے پر متفق کیا جائے گا۔ قرارداد کے متن میں کہاگیا ہے کہ ہالینڈ میں اس گستاخانہ خاکوں کا جوشرمناک مقابلہ ہورہا ہے ، کوئی بھی مسلمان توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برداشت نہیں کر سکتا۔قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ہالینڈ کے سفیر کو بلا کر اس پر احتجاج ریکارڈ کرائے اور او آئی سی کا اجلاس بلا کر اس کی مذمت کی جائے ۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے سینٹ میں اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ مغرب میں لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں کہ ہمارے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کس قدر محبت ہے ۔ان کاکہناتھا کہ اس نازک معاملے پر مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی متحرک ہو اور مضبوط اور مشترکہ طور پر دو ٹوک موقف اختیار کرے ۔انہوںنے گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کیلئے مغربی معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے ۔اسے قبل نگران حکومت کے وزیرخارجہ عبداللہ ہارون نے گستاخانہ خاکوں پر ہالینڈ اور یورپی یونین کے سفیروں کو وزارت خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی صورت ایسی گستاخانہ حرکت برداشت نہیں کرسکتا اور نہ ہم سے توقع رکھی جائے کہ ایسی گستاخی کو برداشت کرسکتے ہیں۔ نگران وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل او آئی سی کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں خاکوں کے مسئلے پر سخت ترین اقدامات کی سفارشات کی گئی ہے۔ نگران وزیر خارجہ نے خط میں کہا کہ گستاخانہ خاکوں سے ہماری برداشت کا امتحان لیا جارہاہے ہم ہر فورم پر اپنا احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔