پوری دنیا کورونا جنگ کے خلاف بر سر پیکار ہے ۔بڑی بڑی حکومتیں اور سلطنتیں کورونا سے چھپ کر گھروں میں بیٹھ گئی ہیں ۔ اصل ضرورت تحقیق اور ریسرچ کی ہے ، خصوصاً ان حالات میں کہ عالمی ادارہ صحت نے یہ کہہ کر انسانیت کو چونکا دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کورونا کبھی ختم نہ ہو ۔ تحقیق اور ریسرچ تب ہوگی جب تحقیق کے بند دروازوں کو کھولا جائے گا اور اپنے ذاتی نظریات و خیالات کو ایک طرف رکھ کر ہر بات کی اصلیت کو جاننے کی کوشش کی جائے گی ۔ بڑے بڑے فرعون کو بے بس ہو چکے ہیں ، اسلحہ و طاقت بے معنی سی چیزیں نظر آنے لگی ہیں ۔ بے پناہ دولت ان کی چھوٹی سی مدد بھی نہیں کر رہی ۔ ان حالات میں کائنات کو ایمانداری کے ساتھ نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر محبوب تابش کی علامہ اقبال کے بارے میں ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب آئی ہے ، جسے فکشن ہاؤس لاہور نے شائع کیا ہے ۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کتاب میں درج اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں ـ ’’ کسی بھی سوسائٹی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی ایک مفکر یا دانشور کے افکار کو ابدی اور آفاقی بنا کر اسے تنقید سے بالا تر کر دیتے ہیں ۔ عہد وسطیٰ میں ارسطو کے فلسفے کو عیسائیت میں ڈھال کر ہزار برس تک اسے تعلیم کا حصہ بنا کر نئے خیالات کو روکے رکھا ۔ جب اسے چیلنج کیا گیا تو نئے خیالات اور افکار امڈ امڈ پڑے ۔ پاکستان میں بھی اقبال اور ان کے افکار کو اس ذہن کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ہر دور میں معاشرے کی رہنمائی کریں گے ۔ اقبال کی پرستش نے نئے نظریات اور افکار کی راہیں بند کر دی ہیں ۔ محبوب تابش نے بڑی جرات کے ساتھ اقبال پرستی کو چیلنج کیا ہے ۔ ‘‘ ’’ اقبال اور جمہوریت ‘‘ ، ’’ شعر و فکر اقبال میں انگریزوں کا حصہ ‘‘ ، ’’ سرکار دربار اور شاہوں کے قصیدے ‘‘ ، ’’ اقبال بطور سیاستدان ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ اقبال کا تصور قومیت کے موضوع پر ایک مکمل باب کتاب میں شامل ہے ۔ کتاب میں علامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی کی معروف بحث جس میں مولانا حسین احمد مدنی کا موقف تھا کہ قوم وطن سے بنتی ہے جبکہ علامہ اقبال کا موقف تھا کہ قوم کا تعلق مذہب سے ہے ، اس طویل بحث میں مضامین اور خطوط شامل کئے گئے ہیں اور اس بحث میں ڈیرہ غازی خان کے معروف عالم دین اور معروف ریسرچ اسکالر علامہ رشید احمد طالوت ، جنہوں نے دونوں ہستیوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی ، کے خطوط بھی کتاب میں شامل ہیں ، کتاب میں لفظ قوم کی توضیح کرنے کے ساتھ ساتھ قومیت کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ قوم کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ دھرتی ،خطے اور وطن کے گروہ سے ہوتا ہے ۔ ایک اور محقق علامہ رحمت اللہ طارق نے اپنی کتاب ’’ انسانیت پہچان کی دہلیز پر ‘‘ میں قرآن مجید کے حوالے سے ثابت کیا کہ قوم کا تعلق مذہب سے نہیں ہوتا ۔’’ قومیت اور زبان کے بابت قرآ ن کی مجموعی پالیسی‘‘ کے عنوان سے مصنف لکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز اپنے وصف سے پہنچانی جاتی ہے۔ بغیر وصف کے نہ شخصیت تکمیل پاتی ہے اور نہ ہی قانونِ فطرت نے کسی کو ’’بے وصف ‘‘ پیدا کیا ہے۔ اس طرح وصف تخلیق کی نیچر میں شامل ہو جاتاہے۔ اب جہاں بھی وصف کو حذف کر دیا جائیگا وہاں تخلیق کا کمال ختم ہو کر ’’ نقص ‘‘ کا روپ دھار لے گا ۔ پرندے کا وصف اڑنا اور بہت سی دیگر مخلوقات کا وصف چلنا، تیرنا اور رینگنا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے انسان کے بھی کچھ اوصاف ہیں جو اس کے خمیر میں شامل اور اس کی شخصیت تکمیل کے اساسی عنصر ہیں ۔اس میں ’’ قوم ‘‘ بھی شامل ہے ، ’’ قومیت ‘‘ بھی ہے اور ’’لسانیت ‘‘ بھی ۔ کوئی بھی انسان بغیر قوم و قومیت کے اور کوئی بھی قوم بغیر زبان کے متعارف نہیں ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: ’’ ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس نے اپنی ہی قوم کی زبان میں بات کی ( سورہ ابراہیم 4 ) ‘‘ ۔ یعنی رسول وہی بنایا گیا جس کی قوم اور قومیت بھی تھی اور زبان بھی ۔ گو کہ وہ ابھی ایمان نہ لائے تھے مگر پھر بھی قوم تھے ۔‘‘ وطن ، مٹی ، قومیت ، زبان و ثقافت کا انکار ممکن نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر ارشاد فرمایا کہ ’’ میں نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ‘‘ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 61میں ارشاد ہوتا ہے ’’ اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو ۔ چنانچہ انہوں نے سجدہ کیا ، لیکن ابلیس نے نہیں کیا ۔ اس نے کہا کہ کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے پیدا کیا ہے ؟‘‘ اسی طرح قرآن مجید میں بار بار ذکر آیا ہے کہ ’’ ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اُتارا ہے جو عربی زبان میں ہے تاکہ تم سمجھ سکو ۔ ‘‘ ( سورۃ یوسف ، آیت2) حضور اکرم ؐ کو محمد عربی کے نام سے پکارا جاتا ہے ، آپؐ مکے میں تھے تو مکی اور مدینے تشریف لائے تو مدنی کہلائے ۔ سرکار مدینہؐ نے مکہ چھوڑا تو اس کے فراق میں رو رہے تھے ، یہ سب کچھ کیا ہے ؟ وطن ، قومیت اور ماں دھرتی کا انکار ہوگا تو سب کچھ جاتا رہے گا ۔ ہماری پاک افواج وطن پر ہی نثار ہوتی آ رہی ہیں ۔ پاکستان کے قومی ترانے کا ایک ایک لفظ ’’ پاک سر زمین شاد باد ، کشور حسین شاد باد ‘‘ سے لیکر آخر تک مادرِ وطن کی ہی نغمہ سرائی ہے ۔ ان حالات میں علامہ اقبال کا یہ فلسفہ ’’ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ، جو پیر ہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے ‘‘ درست نہیں ہے ۔ اگر اس نظریے کو مان لیا جائے تو پاک سر زمین کی شان میں لکھے گئے ملی نغمے ’’ وطن کی مٹی گواہ رہنا ‘‘ ، ’’ یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے ‘‘ ، ’’ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے ‘‘ ، ’’ اے نگارِ وطن تو سلامت رہے ‘‘ ، ’’ اے پاک وطن اے پاک وطن ‘‘ اور ان جیسے سینکڑوں نغمات باطل ہو جائیں گے اور خصوصاً مادرِ وطن سے وفاداری کا حلف جو کہ صدر وزیراعظم کے ساتھ ساتھ عدلیہ ، مقننہ اور افواج پاکستان کے افسران سے لیکر عام سپاہی تک اٹھاتے ہیں ، کی حقیقت کیا رہے گی ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال نے ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ لکھا ، یہ وطن کی تعریف نہیں تو کیا ہے؟