وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ن لیگ نے میڈیا میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی ، بتایا جائے کہ مریم نواز آخر کس حیثیت سے حکومتی میڈیا سیل چلا رہی تھیں۔ پارٹی رہنمائوں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم پر میڈیا پابندی کا الزام لگانے والوں کا کچا چٹھا سامنے آ گیا ہے، وزیر اعظم عمران خان کا سوال سو فیصد درست ہے ، مریم نواز کی طرف سے 92نیوز سمیت 4ٹی وی چینلز کو اشتہارات روکنے کے اعتراف کے بعد دو سوال پیدا ہوئے ہیں، ایک سوال یہ ہے کہ میڈیا کو جاری ہونے والے اشتہارات جوکہ سرکاری خزانے سے جاری ہوتے ہیں کو میرٹ کے برعکس ذاتی پسند پر جاری کرنے یا نہ کرنے کی قانونی حیثیت کیاہے؟ ، دوسرا سوال خود مریم نواز کی حیثیت کا ہے کہ نہ تو وہ وزیر اطلاعات تھیں اور نہ ہی وزارت اطلاعات کا ان کے پاس کوئی عہدہ، تومحترمہ نے غیر آئینی طور پر سرکاری اختیارات کا استعمال کیوں کیا؟۔ اچھی بات ہے کہ اس معاملہ کی تحقیق کیلئے کمیٹی بنائی گئی ہے ۔ ’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں،ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتائیں‘‘ کے مصداق کس کس معاملے کی بات کریں ، کوئی اچھی خبر سننے یا پڑھنے کو نہیں ملتی ، ہاں! البتہ آج ایک خبر سے دل خوش ہوا کہ پاک فوج کی لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر نے پہلی خاتون کرنل کمانڈنٹ آرمی میڈیکل کور بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے ، خواتین آبادی کا نصف سے زائد ہیں، ان کو ہر ادارے میں بھر پور نمائندگی کا حق حاصل ہونا چاہئے، پاک فوج میں بھی زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے چاہئیں، پاک فوج اہم ادارہ ہے ، اچھی بات ہے کہ قانونی طور پر خواتین اور اقلیتوں کیلئے بھی پاک فوج کے دروازے کھلے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ترجیحی طور پر اس طرح کے اقدامات ہونے چاہئیں کہ خواتین زیادہ سے زیادہ پاک فوج کا حصہ بن سکیں۔ انگریزی قوانین پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کر لی ہے ، ہم نے اپنی مذہبی اور پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافتی اقدار سربلند رکھنا ہے، اچھی بات ہے کہ پاک فوج میں پنجاب رجمنٹ، سندھ رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ و دیگر کے ناموں کو شناخت حاصل ہے ، کہ انگریز دور میں ملتان رجمنٹ موجود تھی اور بہاولپور رجمنٹ پاکستان میں ضم ہوئی۔ ریاست بہاولپور کی پاکستان کیلئے عظیم قربانیوں کا تقاضا ہے کہ جس طرح سندھ کو نمائندگی دینے کیلئے سندھ رجمنٹ بنائی گئی ہے اسی طرح پاک فوج میں وسیب رجمنٹ کا قیام ضروری ہے۔ میں بات کر رہا تھا اچھی خبروں کے حوالے سے ، مشیر خزانہ نے اچھی خبر دی کہ ڈالر 8سے 9روپے نیچے آئے گا ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افواہوں پر کان نہ دھریں ، حکومت عوام کا اعتماد مجروح نہیںکریگی ہم مہنگائی پر کنٹرول کریں گے ، اس کے ساتھ ہی اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے اور قیمت 179روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اس کے ساتھ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈالر ابھی 10سے 12روپے مزید بڑھنے کا بھی امکان ہے ، مشیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ افواہوں پر کان نہ دھریں ، افواہ تو افواہ ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق کے طور پر جو کچھ سامنے ہے اس بارے میں بھی مشیر خزانہ قوم کو کچھ بتائیں ۔ ایک اور خبر کے مطابق عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں 10فیصد نمایاں کمی آئی ہے ، کہاجاتا ہے کہ خام تیل کی قیمت گزشتہ ڈیڑھ سال کی کم ترین سطح پرآگئی ہے مگر ہمارے ہاں جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ گزشتہ روز پٹرول پمپ بند رہے ، پٹرول پمپ مالکان کی طرف سے کمیشن بڑھانے کے معاملہ پر ہڑتال تھی ، پٹرول کے حصول کیلئے شہری تو خوار ہوتے ہی رہے ، اس کے ساتھ دیہی علاقوں میں بعض مجبور صارف 300سے 500روپے فی لٹر پٹرول لیتے رہے، اگر خام تیل کی قیمت کم ہوئی ہے تو تیل کی قیمتوں میں کمی آنی چاہئے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور مہنگائی کا بہت حد تک تعلق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے جڑا ہوا ہے۔ وفاقی کابینہ نے سعودی عرب سے ادھار پر تیل خریداری کے معاہدے کی منظوری دیدی ہے ، معاہدے کے مطابق سعودی پاکستان کو ماہانہ 100ملین ڈالر کا ادھار تیل دے گا، غیر ملکی قرضوں کی مخالفت کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت قرضے لے رہی ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچنا چاہئے اور پاکستان کی خود داری پر بھی حرف نہیں آنا چاہئے، سعودی عرب سے معاہدہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان 3ارب ڈالر کے ذخائر سٹیٹ بینک میں رکھنے کا پابند ہوگااور پاکستان کو تیل کی ادائیگی کے ساتھ سعودی عرب کو 3.8فیصد مارجن بھی دینا ہوگا۔ایک اور خبر کے مطابق تحریک طالبان پاکستان فاٹا کا انضمام واپس لینے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئی ہے ۔ فاٹا انضمام کا فائدہ وہاں کے عوام کو صوبائی استحقاق کی صورت میں حاصل ہوا ہے۔ مطالبے کے بغیر فاٹا کو صوبائی استحقاق حاصل ہوا ہے تو سرائیکی وسیب کے لوگ جو نصف صدی سے اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کو صوبے کا استحقاق ہونا چاہئے ، جن’’بڑوں‘‘نے فاٹا کے عام آدمی کو صوبائی استحقاق دینے کا فیصلہ کیا ہے ان کو وسیب میں بسنے والے کروڑوں غریب افراد اور عام آدمی کا بھی خیال کرنا چاہئے کہ صورتحال ایک جیسی ہے، جس طرح قبائلی سردار فاٹا انضمام کے مخالف تھے اسی طرح وسیب کے جاگیر دار، تمن داراور عوام دشمن وڈیرے نہیں چاہتے کہ صوبہ بنے اور عام آدمی کے مسائل حل ہوں۔ دوسرے پہلو پر بھی بات کروں گا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں فاٹا انضمام سے ڈی آئی خان، ٹانک کی سرائیکی آبادی کے مقامی لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے کہ قانون کے مطابق قبائل کو بندوبستی علاقوں میں جائیداد خریدنے کا حق حاصل نہ تھا ، جونہی فاٹا انضمام ہوا قبائل وہاں دھڑا دھڑ جائیدادیںخرید کر رہے ہیں جس سے مقامی آبادی تیزی سے اقلیت میں تبدیل ہو رہی ہے ، اس کا ایک ہی حل ہے کہ ٹانک ، ڈی آئی خان سمیت صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ وسیب کے لوگ بھی پاکستان کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔