عمران خان ڈھنگ سے حکومت کریں۔ اگر نہیں کر سکتے تو تشریف لے جائیں۔ مخمصے کا مارا کوئی آدمی تو ایک گھر نہیں چلا سکتا۔ چھوٹا سا ایک کاروبار نہیں چلا سکتا۔ ملک کیا چلائے گا؟ ہر چیز کی ایک بنیاد ہوتی ہے اور ہر کام کا ایک سلیقہ۔ بنیاد اگر مضبوط نہ ہو تو عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ سلیقہ مندی اگر نہ ہو تو کاوش بے ثمر رہے گی۔ کل کے ہنگامے کا ذمہ دار کون ہے؟ نون لیگ کے حامی کچھ ہی کہیں، میڈیا نے معاملہ الم نشرح کر دیا۔ محترمہ کی گاڑی کا نمبر تک معلوم ہے، جس میں پتھر بھر کر لائے گئے۔ سنگ زنی کے اس اہتمام کی ضرورت کیوں تھی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کوئی ملزم یا ملزمہ جلوس کی شکل میں نمودار ہی کیوں ہو؟ کون سا کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے اور کون سا اعلیٰ مقصد ان کے سامنے ہے کہ فاتحانہ پیش قدمی کریں؟ پرسوں شام سے اخبار نویس بتا رہے تھے کہ ایک بڑے ہجوم کے ساتھ محترمہ نمودار ہوں گی۔ اس کے باوجود پنجاب پولیس ضروری انتظامات کیوں نہ کر سکی؟ اس سوال کا جواب آئی جی پنجاب، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعلیٰ کے ذمہ ہے۔ راستے ہی میں فسادیوں کو کیوں نہ روک دیا؟ المیہ یہ ہے کہ فریقین میں سے کوئی بھی سچا نہیں، کوئی بھی پوری طرح قابلِ اعتبار نہیں۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن سرکاری حملے کی مذمت فرما رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اس باب میں اور بھی زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ شہباز شریف کو تو کرنا ہی تھا۔ نون لیگی سیاست میں وہ شہ بالا ہیں، دولہا نہیں۔ کیا محترمہ کا دعویٰ اپوزیشن لیڈر بھول گئے: لندن تو کیا پاکستان میں بھی میری کوئی جائیداد نہیں۔ پھر یہ اعتراف کہ اٹھاسی کروڑ روپے کی جائیداد رکھتی ہیں۔ اچانک یہ جائیداد کہاں سے آگئی؟ کوئی زیادہ منظم اور مہذب ملک تو کیا، بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ایسی کوئی شخصیت سیاست میں کارفرما نہ رہ سکتی۔پاکستان کی سیاسی رزم گاہ تو ایک سستی قسم کی نوٹنکی بن کر رہ گئی۔ یہ ایک شخص اور ایک خاندان کا معاملہ نہیں۔ سوچنے سمجھنے والے ہر شخص کے ذہن میں وہ ایام ابھی تازہ ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہرِ نامدار نے جب اعلان کیا تھا کہ سرے محل سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر اس کی ملکیت انہوں نے تسلیم کی، قبضہ لیا اور فروخت کر دیا۔ پھر وہ چھ کروڑ ڈالر جو سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں رکھے تھے۔ جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے وزیرِ اعظم کو رخصت ہونا پڑا۔ یہ وہی صاحب تھے، زلزلہ زدگان کے لیے عطیہ کیا گیا ترک وزیرِ اعظم کی بیگم کا ہار جنہوں نے اپنی شریکِ حیات کو پیش کر دیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے ادوار میں تو شہ خانے سے لوٹ مار۔ کتنی ہی کہانیاں رؤف کلاسرہ نے لکھیں۔بھاپ بن کے اڑ گئیں۔ کوئی بے حسی سی بے حسی ہے۔ کرپشن پہ ہم نے سمجھوتہ کر لیا۔ خود کو حالات کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیا۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: بے شرم اپنی مرضی کرے۔اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ معاشرے کی بقا عدل کے قیام اور استقرار میں ہوتی ہے۔ اقبال ؔ نے کہا تھا: وحی انسانی تجربات کا اختصار ہوتی ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں برس میں زمین پر آدمی جو کچھ سیکھتا ہے، آسمان سے ایک جملے میں بیان کر دیا جاتاہے۔ افسوس کہ ہم نے اللہ اور اس کے سچے پیامبرؐ سے کچھ سیکھا او رنہ تاریخ سے۔ لیجیے، محترمہ مریم نواز کی پریس کانفرنس شروع ہو گئی۔ فساد پھیلانے والے کارکنوں کو وہ خراجِ تحسین پیش کر رہی ہیں۔ فسادجو قتل سے بدتر ہے۔ مگر یہ نالائق حکومت؟ اس کے سوا، کوئی دلیل پی ٹی آئی کے فدائین پیش نہیں کرتے کہ مالی معاملات میں ان کا لیڈر قابلِ اعتماد ہے۔آنجناب کا ارشاد یہ ہے کہ لیڈر اگرایماندار ہو تو معاشرے کا میل دھو ڈالتا ہے۔ سول ادارے وہ تعمیر کر دے گا۔ دو گنا ٹیکس وہ جمع کر دکھائے گا۔ پولیس کو اجلاکر دے گا۔ معیشت کی نہ صرف تعمیرِ نو ہوگی بلکہ دنیا بھر سے نوکریاں تلاش کرنے والے اس سرزمین کا رخ کریں گے۔ وزیرِ داخلہ راجہ بشارت ایک جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ فرمایاکہ ہنگامہ برپا کرنے والوں کی فہرست بنا لی گئی ہے۔ قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ کب کارروائی ہوگی؟ عراق سے جب تک تریاق آئے گا، مار گزیدہ جان ہار چکا ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پولیس اگر ناکافی ہوتی تو رینجرز طلب کیے جاتے۔ فوری طور پر محترمہ کو گرفتار کر لیا جاتا اور باقی فسادیوں کو بھی۔ فیصلے صادر کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت کا کام وعظ فرمانا ہرگز نہیں۔ کیا سول حکومت فیصلے کرنے کے لیے آزاد نہیں۔ کیا اونٹ کی ناک میں دو نکیل ہیں؟ ایک اہم سوال کل ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اٹھایا: یہ کہ نیب ایک قابلِ اعتماد ادارہ ہی نہیں۔ تاثر اس کا یہ ہے کہ محض مخالفین کے خلاف وہ بروئے کار آتاہے۔ وفاقی کابینہ میں سرگرم خسروبختیار وں کے خلاف کبھی نہیں۔ بی آرٹی پشاور کے بجٹ میں کئی گنا اضافے اور برسوں کی تاخیر کے ذمہ دار خٹکوں اور خانوں کے خلاف کبھی نہیں۔ دو برس بیت گئے۔ پولیس وہی ہے، پٹوار وہی، افسر شاہی بھی وہی، مصلحت پسندی کی سیاست بھی وہی۔زمین بھی وہی، آسمان بھی وہی۔دن وہی، رات وہی۔ جمہوریت ضروری ہے۔ سچی آزادی ہی میں پوری انسانی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔ ڈسپلن بھی مگر لازم ہے۔ بے مہار اور لامحدود آزادی نام کی کوئی چیز دنیا میں نہیں ہوتی۔ یہ انارکی ہوا کرتی ہے یا انارکی کے دور کی ابتدا۔ معاشرے وہی سرخرو اور سرفراز ہوتے ہیں جہاں عدل کی عمل داری ہو۔۔۔اور عوامی شعور کی سطح کم از کم اس قدر کہ سیاہ اور سفید میں تمیز کر سکیں۔ مسلم تاریخ میں زوال کا آغاز فساد سے ہوا تھا۔ جنابِ عثمان غنیؓ کے خلاف بدنہاد لوگوں کی شورش سے۔ ذو النورینؓ کے بارے میں سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا: فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں۔ ہاں! مگر انسانوں کو حیا نہ آئی۔ پھر یزید کے حق میں جبراًبیعت لی گئی اور قافلہ بھٹک گیا۔ خرابی کا آغاز ہمیشہ علمی انحراف سے ہوتاہے۔ علم اور عدل کے ساتھ بنیادی تجزیہ جب تک درست نہ ہوگا، راستہ بھی متعین نہ ہو سکے گا۔منزل بھی نصیب نہ ہوگی۔ عمران خان ڈھنگ سے حکومت کریں۔ اگر نہیں کر سکتے تو تشریف لے جائیں۔ مخمصے کا مارا کوئی آدمی تو ایک گھر نہیں چلا سکتا۔ چھوٹا سا ایک کاروبار نہیں چلا سکتا۔ ملک کیا چلائے گا؟ پسِ تحریر: مبالغہ آرائی لیڈروں کا شیوہ ہے کہ خود معاشرے کا بھی لیکن کل محترمہ مریم نواز نے غلط بیانی کی انتہا کر دی۔ کہا کہ وہ تنہا نیب کے دفتر تشریف لے گئی تھیں، کارکن اپنے طور پر آئے۔ سارا شہر جانتا ہے، تمام اخبار نویس جانتے ہیں کہ کتنی بڑی مشق نون لیگ کے حامیوں کو جمع کرنے کے لیے برپا کی گئی۔ افسوس کہ کوئی ایک لیڈر بھی پورا سچ بولنے والا نہیں۔ کوئی ایک پارٹی بھی نہیں۔سب کے سب مصلحت پسند، سب کے سب متذبذب، سب کے سب خوف اور مخمصے کے مارے۔