گزشتہ روز خاور نعیم ہاشمی کے کالم میں ابراہیم جلیس کا تذکرہ پڑھ کر ابن انشاء یاد آ گئے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب آسمان اردو صحافت پر ایک سے بڑھ کر ایک کالم نگار ستاروں کی طرح جگمگاتے تھے۔ نصراللہ خاں ‘ مجید لاہوری‘ شوکت تھانوی ‘چراغ حسن حسرت‘ عبدالمجید سالک‘ انعام درانی اور دوسرے بہت سے۔ ان ہی میں سب سے روشن نام ابن انشاء کا تھا‘فکاہیہ کالم نگاری کا ایک تابندہ ستارا کہتے ہیں انہیں ‘کالم لکھنے کے لئے سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ قلم اٹھایا اور لکھتے چلے گئے۔ اردگرد دوستوں کی محفل جمی ہے۔ چائے کا دور چل رہا ہے اور آپ کالم نویسی میں مصروف ہیں۔ وہ پیدائشی کالم نگار تھے اور مزاح تو گھٹی میں پڑی تھی۔ مجھے ان سے ایک ہی بار ملنے کا موقع ملا۔ نیشنل بک کونسل کے دفتر میں۔ خیال تھا جیسے لکھنے میں شگفتہ ہیں ویسے ہی ملنے جلنے میں بھی شوخ و شنگ ہوں گے۔ لیکن ان سے مل کر مایوسی ہوئی۔ سنجیدہ اور ذرا سا خود کو لیے دیے۔ ممکن ہے دوستوں کی محفل میں چمکتے ہوں اور اجنبیوں اور اپنے مداحوں کے درمیان خاموشی اور سنجیدگی اختیار کئے رہتے ہوں۔ نصراللہ خاں جو حریت اخبار میں’’آداب عرض‘‘ کے عنوان سے چھپتے تھے اپنی ذاتی زندگی میں بھی ویسے ہی کھلے ڈلے رہتے تھے۔ مزے مزے کی باتیں کرتے تھے اپنے چھوٹوں پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ افسوس کہ انہیں بہت جلد بھلا دیا گیا۔ ملک کے تمام بڑے اخبارات میں انہوں نے لکھا۔ مولانا ظفر علی خاں کی صحبت اٹھائے ہوئے تھے اور ان ہی کی شاگردی میں صحافت کا درس ان سے لیا تھا۔ جن دنوں انہوں نے لکھنا شروع کیا۔ کالم نگاری کی ایک ہی قسم رائج تھی اور وہ تھی فکاہیہ کالم نگاری۔ آج کی طرح کالموں کی اتنی قسمیں نہ تھیں‘ سیاست کے موضوع پر تجزیاتی سنجیدہ مضامین اور کالموں میں فرق واضح تھا۔ اب تو کالموں اور مضامین میں فرق ہی مٹ گیا یا مٹا دیا گیا ہے۔ تب زندگی کے مختلف شعبوں اور پہلوئوں پر ہلکے پھلکے تبصروں اور جملے بازی کو ہی کالم تصور کیا جاتا تھا۔ جس کا ایک مستقل عنوان ہوتا تھا ۔ کالم کے ساتھ کالم نگار کی تصویر نہیں ہوتی تھی۔ چراغ حسن حسرت اور عبدالمجید سالک جدید کالم نگاری کے پیش رو تھے۔ زمیندار اور انقلاب میں بعدازاں امروز میں ان بزرگوں کے کالم چھپا کرتے تھے‘ جس نے بعد میں مجید لاہوری اور شوکت تھانوی جیسے کالم نگاروں کا راستہ ہموار کیا۔ مجید لاہوری کا انداز جداگانہ تھا۔ وہ صحیح معنوں میں عوامی کالم نگار تھے۔ سنا ہے ان کے کالم کراچی کے تانگے اور رکشہ والے بھی شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے کالموں میں کچھ کردار وضع کر لئے تھے۔ مثلاً سیٹھ ٹائر جی ‘ٹیوب جی‘ مجو بھائی‘ جمن بھائی وغیرہ اور حالات حاضرہ پر رواں تبصرے ان ہی کرداروں کی زبان سے کہلواتے تھے‘ جس روز کالم کا ناغہ ہوتا تھا اس دن ان کی مزاحیہ نظم ادارتی صفحے پر چھپتی تھی اور بہت پسند کی جاتی تھی۔ مجید لاہوری کی وفات کے بعد ابن انشا کو مقبولیت ملی۔ ان کی نثر پر چراغ حسن حسرت کے زبان و بیان سے اثر لینے کا دھوکا ہوتا تھا۔اصل میں فکاہیہ کالم نگاری کا سارا لطف اسلوب بیان ہی میں چھپا ہوتا ہے۔ آپ کس طرح سیدھی بات کو ترچھے انداز میں کہتے ہیں‘ لفظوں سے کس طرح کھیلتے ہیں۔ زبان و بیان پر قدرت کے بغیر مزاح نگاری ممکن نہیں ہوتی۔ ابن انشاء نے اودھ اخبار کے منشی رتن ناتھ سرشار کے فسانہ آزاد کی جلدوں کی جلدیں چاٹ رکھی تھیں۔ اس کا اثر بھی ان کی مزاح نگاری پر پڑا تھا۔ کلاسیکی نثر ابن انشاء کی پہچان تھی۔ بہت بعد میں ادبی کالم نگاری میں شہرت مشفق خواجہ نے کمائی۔ وہ خامہ بگوش کے قلمی نام سے لکھتے تھے بالعموم ان کے موضوعات نئی ادبی کتابیں ہوتی تھیں اور مشق سخن ادیب یا شاعر اور اس کی تصنیف یا شاعری بنتی تھی۔خواجہ صاحب جس کی بابت کوئی فقیرہ کستے تھے۔ وہ ایسا چسپاں ہوتا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ادبی حلقوں میں زبان زد خاص و عام ہو جاتا تھا۔ ان کے کالم بھارت کے ادبی رسائل میں بھی نقل ہوتے تھے اور ہمارے ہاں تو فوٹو کاپیاں کالم کی تقسیم ہوتی تھیں۔ مشفق خواجہ بڑے پائے کے محقق تھے مگر ان کی کالم نگاری کی چمک دمک نے ان کی تحقیق کی دنیا کی شہرت کو ماند کر دیا تھا۔ ویسے بھی تحقیق و تنقید کی دنیا تو محدود سی ہوتی ہے اور ان کی کالم نگاری سے لطف اندوز ہونے والوں کا دائرہ وسیع تھا۔خواجہ صاحب ابن انشا کے برعکس نہایت باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ عام زندگی میں بھی فقرے بازی کا مذاق رکھتے تھے‘ شادی کی ایک محفل میں ان کی اہلیہ محترمہ کہیں ادھر ادھر ہو گئیں۔ خواجہ صاحب کچھ پریشانی سے انہیں ڈھونڈ رہے تھے کسی نے انہیں تسلی دی کہ پریشان نہ ہوں مل جائیں گی۔ برجستہ فرمایا اور کس لئے پریشان ہوں۔ یہ تو پریشانی ہے کہ بالآخر مل جائیں گی۔ ایک ادیب نے خواجہ صاحب کو اپنی نئی تصنیف پیش کی لیکن کتاب پر نہ کچھ لکھا اور نہ دستخط ہی کئے ۔ خواجہ صاحب بولے’’حضرت ! لکھ کر دیجئے ورنہ لوگ سمجھیں گے میں نے خریدی ہے‘‘خواجہ صاحب جب تک جیتے رہے اپنے فقروں اور کالموں سے پڑھنے والوں کو محظوظ کرتے رہے۔ اب صحافت کی دنیا ماضی کے مزاحیہ و فکاہیہ کالم نگاروں سے خالی ہو چکی ہے۔ اب زیادہ تر کالم سیاسی تجزیوں اور تبصروں سے پر ہوتے ہیں۔ اصل میں مزاحیہ کالم نگاری تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ اک ذرا قدم ڈگمگایا اور آپ رسے سے نیچے گرے۔ سنجیدہ کالم ناپسند ہو تو آپ پڑھنا چھوڑ سکتے ہیں۔ فکاہیہ کالم نگاری ہو تو جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔مزاحیہ کالم نگاری کوشش سے نہیں ہوتی یہ تو مزاج سے تعلق رکھتی ہے۔ طبیعت مزاح سے لگا نہ کھائے تو زبردستی مزاح پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں کالم نگار ادب کی دنیا سے آتے تھے ان کا ادبی پس منظر مضبوط ہوتا تھا ابراہیم جلیس نے ’’چالیس کروڑ بھکاری‘‘ لکھ کر ادبی شہرت کمائی تھی۔شوکت تھانوی ’’سودیشی ریل‘‘ لکھ کر مشہور ہوئے تھے۔ ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب ایک ایسا شاہکار ہے‘ جو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔اب کالم نگاری کے لئے ادبی پس منظر کا ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ صحافت کی دنیا میں کامیابی اور ہر دلعزیزی کے لئے ادب کا مرہون منت ہونا ناگزیر نہیں۔ لیکن ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ آج کی الم انگیز اور بے کیف دنیا میں ضرورت ایسے فکاہیہ اور مزاحیہ کالم نگاروں کی ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو پرلطف اور مزے دار تحریریں پڑھوائیں جنہیں پڑھ کر ماحول کی سختی اور دل شکستگی دور ہو اور ساری تھکن اور بے کیفی چھٹ جائے۔ خدا کرے کوئی اور ابن انشا اور ابراہیم جلیس ہمیں میسر آئے۔