طالبان کی عظیم الشان فتح کے بعد وہ نعرۂ مستانہ جو مسلم اُمہ کے مفکرین اور دانشوروں کو لگانا چاہئے تھا،وہ چین کے لکھاری اور تجزیہ نگار بلند کر رہے ہیں۔چین کے علمی اور صحافتی حلقوں میں ڈینگ گینگ (Ding Gang) ایک بہت بڑا نام ہے۔ وہ چونگ یانگ (Chong Yang) انسٹیٹیوٹ آف فنانشل سٹڈیز میں سینئر فیلو اور پیپلز ڈیلی میں سینئر ایڈیٹر بھی ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی ذِلت آمیز شکست کے بعد 18 اگست کو گلوبل ٹائمز (Global Times) میں اس نے ایک مضمون تحریر کیا ہے، جس کا عنوان ہے۔ "Taliban victory a major failure of Western civilization’s expansion" (طالبان کی فتح: مغربی تہذیب کے پھیلائو میں ناکامی)۔ اس مضمون میں اس نے لکھا ہے کہ یہ شکست صرف ملٹری یا عسکری شکست نہیں ہے اور نہ ہی یہ جنگ معیشت کی جنگ تھی بلکہ یہ تو نظریات اور عقیدوں کی جنگ تھی۔ اس کے مطابق مغربی دُنیا اور اسلام کے درمیان یہ جنگ پانچ سو سال سے چلی آ رہی ہے اور امریکی افواج کا انخلاء اس جنگ میں ایک بہت بڑی ذِلت آمیز تاریخی علامت بن چکا ہے۔ یہ علامت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ طاقت کا استعمال ایسی تہذیبوں کو نہیں کچل سکتا،جنہیں مغرب پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھ کر دو سو سال سے حملہ آور ہوتا رہا ہے۔ مغرب نے نوآبادیاتی پھیلائو کے دوران گزشتہ پانچ سو سالوں میں دو کام ساتھ ساتھ کئے۔ ایک اپنی تہذیب کی بالادستی کیلئے اپنے مذہبی اور نظریاتی مشن ان کالونیوں میں پھیلائے اور دوسرا ان خطوں کی دولت کو لوٹ کر اپنا گھر آباد کیا،جسکے نتیجے میں دُنیا بھر میں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا آغاز ہوا اور آج تک جاری ہے۔ مغرب نے دُنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک کیلئے بزورِ طاقت یہ لازم قرار دیا کہ وہ مغربی سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام اور طرزِ زندگی کو اپنے ہاں نافذ کریں ورنہ قوت سے ان پر یہ نظام نافذ کر دیئے جائیں گے۔ڈینگ گینگ کے مطابق مغرب کا یہ مشن پانچ سو سال سے جاری ہے جس کا مقصد ملکوں کو فتح کر کے اور ان کی تہذیبوں کو تبدیل کر کے پوری دُنیا پر تہذیبی اور معاشی غلبہ حاصل کرنا تھا۔ لیکن افغانستان میں بیس سالہ محنت،ڈھائی ہزار ارب ڈالر کا ضیاع اور افغانستان کے شہروں میں ’’تہذیبی جزیرے‘‘ بنانے کی کوشش کے باوجود اس شکست نے امریکہ اور مغرب کے گزشتہ پانچ سو سالہ قوت و غلبے کے ڈیزائن کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب واشنگٹن نے اپنی لڑائی اور غلبے کا مرکزِ جنگ ہی بدل دیا ہے، کیونکہ امریکہ کے دماغ سے ابھی تک پوری دُنیا کو فتح کرنے کا ’’خمار‘‘ نہیں نکلا۔ یہ اس مضمون کی تقریباً آخری لائن ہے اور مصنّف نے پڑھنے والے پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اندازہ لگائے کہ امریکہ کا اگلا میدانِ جنگ کونسا ہو گا۔ ہر ذی ہوش کو علم ہے کہ یہ میدانِ جنگ چین ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس لڑائی اور میدانِ جنگ میں کودنے کیلئے کسی قسم کا کوئی براہِ راست جھوٹا بہانہ نہیں تراشا گیا، کہ وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ عورتوں کو حقوق میسر نہیں، فلاں اقلیت پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں، واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ ہمارے آئندہ مشن کا نام ہے "Containment of China" (چین کو اس کی حدود میں رکھنا)۔ چین …ایک ایسا ملک جس نے کبھی کسی سے لڑائی نہ کی ہو، اس کی فوج نے علاقے فتح کر کے اپنی کالونیاں نہ بنائی ہوں۔ اس کے باوجود اسے صرف اس بات کی سزا دی جائیگی کہ اس کا کاروبار کیوں دن دُگنی رات چگنی ترقی کرتا چلا جا رہا ہے۔ چین کے اخبارات اور رسائل ایسے مضامین سے بھرے ہوئے ہیں جو اپنے تجزیے کی تان اس بات پر توڑتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب نے جو ایک کھوکھلا معاشرتی، تہذیبی اور اقتصادی نظام بنا رکھا ہے اور جسے وہ طاقت اور ٹیکنالوجی کے زور سے دُنیا پر نافذ کرتا رہا ہے، اس کی کامیابیوں کی یہ ایک پوری صدی اب افغانستان میں ناکامی کے بعد تمام ہوئی اور اقتصادی قوت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کا بُت بھی چکنا چُور ہو گیا۔ ڈینگ گینگ کی طرح دو اور اہم دانشور ینگ شنگ اور کوئی فندی کے مضامین بھی مسلسل اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی شکست ایک معمولی سی جنگی شکست نہیں، جیسی شکست ویتنام میں ہوئی تھی، بلکہ یہ اس بڑھتی ہوئی تہذیبی بالادستی کا مکمل زوال ہے۔ یہ امریکہ کے اس واحد عالمی قوت کے تصور کی شکست ہے اور اس کے غرور کو خاک میں ملانا ہے۔ چین جسے اس وقت براہِ راست امریکی جنگ کا سامنا ہے، جس کے خلاف امریکہ نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے "Indo Pacific" یعنی ہند چینی کے نام سے اپنی اگلی جنگ حکمتِ عملی کا اعلان کر رکھا ہے اور چند ماہ پہلے اس نے بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ کو ملا کر ایک چار ملکی اتحاد QUAD بھی بنایا ہے۔ وہی چین اور اس کے دانشور امریکہ اور یورپ کے حملوں، جنگوں اور فتوحات کو محض ایک جنگ نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے اعلیٰ دماغ لوگ آج بھی یہ ادراک رکھتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کا حملہ ہمیشہ ایسی جعلی اخلاقیات کے لبادے میں کیا جاتا ہے جو اس نے خود ساختہ طور پر تراش رکھی ہیں اور وہ انہیں دُنیا پر نافذ کرنے کے بہانے ملکوں پر حملے کرتا ہے۔ ان کھوکھلی اقدار کا نام جدید مغربی تہذیب ہے جس کی نام نہاد علامتوں میں انسانی حقوق، حقوقِ نسواں، اقلیتوں کے حقوق اور اس طرح کے دیگر بے بنیاد آئیڈیل بنائے گئے ہیں اور ان ملکوں کو مغرب اپنی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتا ہے اور پھر بدنام کرتا ہے۔ بدنامی کے بعد ان پر حملہ آور ہوا جاتا ہے۔ یعنی آپ ایک ملک میں چار اقلیتی افراد کے قتل کا بہانہ بنا کر گھستے ہیں اور وہاں چار لاکھ بندے مار دیتے ہیں، شہر اُجاڑ دیتے ہیں، گھر تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی آپ کے ہاتھ صاف ہیں۔ آپ نے اگر عراق میں پندرہ لاکھ لوگوں کو قتل کیا ہے تو بہانہ یہ ہے کہ ہم نے صدام جیسے شخص کو ہٹانے کیلئے ایسا کیا تھا۔ امریکی اور یورپی قتل عام جو گزشتہ ایک صدی سے جاری ہے اس کو خوبصورت لبادے میں میڈیا لپیٹتا ہے اور خون کے دھبوں کو گلاب بنا کر پیش کرتا ہے۔ افغانستان کی یہ شکست جو سیکولر، لبرل ،مغربی سودی تہذیب کی شکست تھی اور ٹیکنالوجی کے دیوتا کی ذِلت تھی، اس کے بارے میں آج مغربی دُنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کا مرعوب دانشور یہ نعرہ بلند کر رہا ہے کہ امریکہ کا تو افغانستان میں ہدف صرف اُسامہ بن لادن تھا، وہ اس نے حاصل کر لیا، اس لئے وہ یہاں سے فتح مند ہو کر جا رہا ہے۔ اُسامہ بن لادن کی موت کے ڈرامے کو دس سال ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد امریکہ نے اس افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کئے۔ ایک اتحادی فوج تیار کی، بھارت کو اپنے نائب کے طور پر تیار کیا۔ شکست اور ذِلت آمیز شکست کا تو آغاز ہی اس وقت شروع ہوا جب اُسامہ بن لادن کی موت کا واقعہ ہوا۔ میرے ملک کے سیکولر، لبرل دانشور کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ وہ ابھی تک ٹیکنالوجی کے بُت کے سامنے سجدہ ریز ہے اور تہذیبِ مغرب کے نشے میں مست ہے۔چین کے مفکرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی شکست نے تہذیبِ مغرب کے پھیلائو کا راستہ ہی روک دیا ہے۔ آقا سید الانبیائؐ نے بھی اسی بات کا اعلان کیا تھا کہ ’’خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے۔ ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکے گی، یہاں تک کہ ایلیا (فلسطین) میں یہ نصب کئے جائیں گے‘‘ (ترمذی)۔ جن جھنڈوں کو اب پوری مغربی تہذیبی قوت نہیں روک سکے گی،ان جھنڈوں کے مقابلے میں پاکستان کے کاسہ لیس مغرب زدہ سیکولر، لبرل دانشوروں کی کیا اوقات ہے۔