اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کروائے یا نہ کروائے سلامتی کونسل اپنی کمٹمنٹ نبھائے یا نہ نبھائے ‘ عالمی برادری اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائے یا نہ جگائے مگر کشمیری مسلمانوں نے اتوار کے روز نہ صرف کشمیر میں ریفرنڈم کا انعقاد کروا دیا بلکہ نتیجہ بھی سنا دیا۔ اتوار کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی کے جموں و کشمیر اور لداخ کے دورے کے موقع پر سارے مقبوضہ کشمیر میں متحدہ قومی تحریک مزاحمت کی کال پر بے مثال ہڑتال کی گئی۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر اور ٹرینوں کی آمدورفت معطل رہی۔اتنا مکمل شٹر ڈائون کر کے اہل کشمیر نے مودی سرکار پر واضح کر دیا کہ یہ ہے ہمارا ریفرنڈم۔ اب اگر اس ریفرنڈم کا نتیجہ آپ کی سمجھ میں نہ آئے یا آپ کی آنکھوں پر بندھی ڈھٹائی کی پٹی آپ کو یہ نتیجہ نہ دیکھنے دے تو یہ آپ کی مرضی وگرنہ کشمیری مسلمان حق خود ارادیت کے علاوہ کوئی بات سننے یا ماننے کو تیار نہیں۔ آزاد کشمیر کے اہم کشمیری رہنما عبدالرشید ترابی سے میں نے اسلام آباد کی ’’قومی کشمیر کانفرنس‘‘ کے بعد پوچھا کہ مقبوضہ کشمیر کی کتنی فیصد آبادی تحریک آزادی کشمیر میں شریک ہے۔ ترابی صاحب نے جواب دیا بلا مبالغہ سوفیصد کشمیری یک زباں اور یک آواز ہیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و مجبور مسلمانوں کو حق خود ارادیت دلائے اور بھارت کو مجبور کر دے کہ وہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا بند کرے اور ریفرنڈم کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرے۔ یوم یکجہتی کشمیر سے دو روز قبل سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن نے ’’قومی کشمیر کانفرنس‘‘ کا اسلام آباد میں انعقاد کر کے یقینا ایک مستحسن قدم اٹھایا۔ کانفرنس کی متفقہ قرار داد کا لب لباب یہ تھا کہ ’’کشمیر کی آزادی قریب‘ سفارتی جنگ تیز کی جائے‘ بھارت کو غاصبانہ قبضہ چھوڑنا ہو گا‘ دنیا جنگ کے شعبے بھڑکنے سے پہلے کچھ کرے‘‘ کشمیر کمیٹی کی آٹھ سالہ چیئرمینی کے دوران ہم مولانا فضل الرحمن کو بارہا یاد دلاتے رہے کہ سفارتی محاذ پر بھی جنگیں جیتی جاتی ہیں بلکہ تاریخ عالم کا مطالعہ کر لیں کہ توپ و تفنگ سے کم اور مذاکرات کی میز پر زیادہ جنگیں جیتی گئیں۔ اس وقت مولانا نے ہماری گزارشات پر توجہ نہ دی اور دور اقتدار کی دیگر مصروفیات کی بنا پر مولانا نے بات سنی ان سنی کر دی۔ اب مولانا فرماتے ہیں کہ آزادی کشمیر کے لئے سفارتی جنگ تیز تر کی جائے۔ اس کے بارے میں یہ شعر نوکِ قلم پر آ گیا کہ ؎ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا قومی کشمیر کانفرنس میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے نریندر مودی کو مخاطلب کرتے ہوئے کہا کہ مودی سن لے کشمیر پر ہم سب ایک ہیں۔ آصف علی زرداری نے بالکل سچ کہا کہ قومی معاملات پر ساری پاکستانی قوم یک زباں ہوتی ہے۔ تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے۔1965ء میں بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر جنگ مسلط کر دی تو ساری قوم حزب اختلاف کے بڑے بڑے رہنمائوں سمیت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی۔ آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان ایک صاحب علم ہیں۔ انہوں نے چین میں بحیثیت سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے ہیں۔ مسعود خان نے قومی کشمیر کانفرنس میں کہا کہ میں نے آج تک اس سے کامیاب کشمیر کانفرنس نہیں دیکھی۔ یوم یک جہتی کا مقصد بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے یاد دلایا کہ 1947ء میں کشمیر میں ہولو کاسٹ ہوا تھا۔2لاکھ 37ہزار کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔ اس طرح سے اگر بیس پچیس برس سے جاری تحریک آزادی کشمیر میں کشمیریوں کی قربانیوں کو شامل کیا جائے تو اس وقت تک بھارت پانچ لاکھ کشمیریوں کو قتل کر چکا ہے۔ بچیوں تک کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ چھ ہزار کشمیریوں کو بینائی سے محروم کیا جا چکا ہے۔ بھارت ایک نو آبادیاتی قوت بن چکا ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ حیدر فاروق نے مختصر مگر نہایت جامع بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر فوجی آمر پرویز مشرف کے مردہ چارنکاتی فارمولے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس فارمولے نے مودی سے زیادہ مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچایا تھا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بوچ نے بالکل درست کہا کہ مسئلہ کشمیر موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ انہوں نے کہا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خود نہ جا کر عمران خان مسئلہ کشمیر کو عالمی فورم سے نیچے لے آئے۔ لیاقت بلوچ کی بات میں یقینا صداقت ہے۔ آج جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں یوم یکجہتی کشمیر سے پہلے اکٹھی ہو کر دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ ایٹمی قوت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس موقع پر صدر پاکستان عارف علوی اپنی فیملی کے ساتھ مری میں برفباری اور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان لاہور میں پنجاب کے ’’سادہ دل‘‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ڈھارس بندھا رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ’’فرض کفایہ‘‘ صرف ایک شخص ادا کر رہا ہے وہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہیں۔ وہ 3فروری کو لندن پہنچے ہیں۔ قریشی صاحب آج 4فروری کو برطانوی پارلیمنٹ میں انٹرنیشنل کشمیر کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ قریشی صاحب نے گزشتہ چند روز کے دوران حریت کانفرنس کے میر واعظ اور سید علی گیلانی سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی پر چند کشمیری قائدین نے یہ خوشخبری دے دی ہے کہ بھارتی چنگل سے کشمیر کی آزادی اب دور نہیں۔میں نے عرض کیا کہ آپ کے یقین کامل کا سبب کیا ہے۔ ان کشمیری قائدین نے کہا کہ آج فی الواقع کشمیر کا بچہ بچہ‘ کشمیر کے جوان اور بوڑھے سارے مردوزن کفن بر دوش آزادی کشمیر کی جنگ میں یقینی کامیابی کے لئے میدان عمل میں نکل آئے ہیں اور وہ آزادی کے لئے اپنے لہو سے روز نئے ابواب رقم کر رہے ہیں ۔انہوں نے یہ نوید بھی سنائی کہ حریت کانفرنس کے سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے یاسین ملک سب اپنے ساتھ شامل دیگر سیاسی جماعتوں سمیت متحد و متفق ہیں۔5فروری 1990ء کو قاضی حسین احمد نے پہلی مرتبہ یوم یکجہتی کشمیر منایا اور نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر ہر سال تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونکتے رہے۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے بھی آزادی کشمیر کے لئے بہت خدمات انجام دیں۔ مولانا فضل الرحمن دیگر سیاسی و دینی جماعتوں کے ساتھ آزادی کشمیر کے لئے یورپ و امریکہ سمیت دنیا کے کونے کونے میں سفارتی جنگ تیز کریں ساری قوم پاکستان کے اندر اور باہر ان کا بھر پور ساتھ دیگی۔