جب ملکی ترقی کے خوابوں کو سیاست ختم کرنے لگے تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ آبی ذخائر اس ملک کے لیے خوابوں کے انبار ہیں جو ملک معاشی طور پر زرعی مزاج رکھتا ہے۔ جس ملک میں برف کے بجائے گرم پانی ہو۔ جس ملک میں پہاڑوں سے زیادہ میدان ہوں۔ اس ملک کو ترقی کرنے کے لیے اور کیا چاہیے؟ مگر ہمارے سیاستدان حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کی نظر اس طرف نہیں جاتی جس طرف ملکی خوشحالی کے خواب جل رہے ہیں۔ کیا اس میں کوئی شک ہے کہ اس ملک کا بھلا چاہنے والے بھلے لوگ ہمیشہ سے اصرار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں ڈیم بننے چاہئیں۔ جب کالا باغ ڈیم کا نام آتا ہے تب تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پنڈورا باکس کھل گیا ہو۔ اس لیے جب کسی حکمران کو اپنی حکومت جاتی نظر آتی رہی ہے تب وہ کالا باغ ڈیم کی بات کرتا سنا گیا ہے اور جب وہ اقتدار میں مضبوط ہوتا ہے تب وہ بھول جاتا ہے کہ کوئی ایسا منصوبہ بھی ہے جس کے لیے کبھی اس نے وعدے کیے تھے۔ سندھ میں کالا باغ ڈیم کا نام بھی سننا گوارا نہیں کیا جاتا اور اس کے بھی اسباب ہیں۔ کیوں کہ سندھ کو پانی کے سلسلے میں تلخ تجربات ہیں۔ سندھ نے ہمیشہ بہتری کی امید رکھی ہے مگر اس کے دامن میں بدتری آئی ہے اور یہ صورتحال صرف اس وقت نہیں ہوتی جس وقت وزارت عظمی کی کرسی پر کوئی غیر سندھی بیٹھا ہوا ہوتا ہے مگر جب وزارت عظمی کی کرسی پر کوئی سندھی بولنے والا بھی بیٹھا ہوتا ہے تب بھی سندھ کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے سلوک کے باعث قومپرست سیاست کو قدم جمانے اور نفرت انگیز نعرے لگانے کے بہانے میسر آتے ہیں۔ سندھ کی سرزمین دریا کے حوالے سے بالکل آخر میں ہیں۔ اس لیے وہ صوبہ ہو یا کوئی کسان ہو؛ جو بھی آخر میں ہوتا ہے اسے انصاف نہیں ملتا۔ سندھ میں وہ آبادگار راستوں پرآکر احتجاج رکارڈ کراتے ہیں جن کی زمینیں کینالوں کے حوالے سے آخر میں ہوتی ہیں۔ وہاں طاقتور زمیندار اور وڈیرے ٹیل Tailتک پانی پہنچنے نہیں دیتے۔ کیوں کہ وہ کینالوں سے پانی کی ایک ایک بوند ایک ایک قطرہ نچوڑ لیتے ہیں۔ انصاف کہاں ہے؟یہ تو ایک یونیورسل سوال ہے۔ مگر ممکن حد تک انصاف کیا جائے تو ملکی صورتحال بہتر نہیں بلکہ بہت بہتر ہو سکتی ہے۔ مگر یہاں بندر کا تماشہ ہے۔ ہر حکمران اپنی اپنی ڈفلی بجا کر عوام کو نچا کر جیب بھر کر چلا جاتا ہے۔جب سیاست ملک لوٹنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کے فن بن جائے تو پھر اس سے بہتری کی امید رکھنا عبث ہے۔پاکستان کو قدرت نے کیا نہیں دیا؟ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے قدرت کی ان نعمتوں کی قدر نہیں کی۔ اس لیے ہم سونے جیسے ملک کے مالک ہوتے ہوئے بھی عالمی مالی اداروں کے دروازوں پر بھکاریوں کی طرح کھڑے ہیں۔ اگر ہم اپنے ملکی وسائل کو بہتر انداز سے استعمال میں لائیں تو ہم لینے والے نہیں بلکہ دینے والے بن جائیں۔ دینے کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ بچت کی جائے۔ پیسہ دینے کے لیے پیسہ بچانا لازمی ہے۔ بالکل اسی طرح پانی دینے کے لیے پانی بچانا لازمی ہے۔ ڈیم کیوں بنائے جاتے ہیں؟ ڈیم اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ جب فصل کاشت کرنے کا موسم ہو تب پانی کو روکا جائے؟ ڈیم اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ جب بارش کی وجہ سے اس موسم میں دریا بھر جاتے ہیں جس موسم میں زمینوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جب زمینوں پر کھڑی تیار فصل کے باوجود اس خوف میں ہوتے ہیںکہ اگر پانی آگیا تو کسان کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔ اس صورت میں پانی کو روکنے اور جمع کرنے کے لیے ڈیم بنائے جاتے ہیں ۔ جب فصل کاشت کرنے کے موسم میں بارشیں کم ہوتی ہیں تب بھرپور فصل حاصل کرنے کے لیے ڈیموں میں جمع پانی سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سسٹم ہوتا ہے جس کے وجود سے سب کو سکھ ملتا ہے۔ سب کی بہتری ہوتی ہے۔ اس لیے سب اس کے حق میں ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پانی جمع کر کے ذخائر بنائے جائیں۔ کالا باغ ڈیم ایک کنٹروورشل پراجیکٹ بن گیا تو ہم نے بھاشا ڈیم بنانے کے سلسلے میں اپنے عزم کا اعلان کیا۔ اس ڈیم کا کیا بنا؟ جس کے لیے ہم نے قوم سے عطیات مانگے تھے اور ملک کے اکثر بینکوں پر بھاشا ڈیم کی تعمیر مدد کرنے کی اپیل والے الفاظ کے بینر لہراتے تھے۔ وہ بینر کہاں ہیں؟ خیر بینر پرانے ہوئے اور وہ اتارے گیے یا اڑ گئے مگر اس منصوبے کا کیا ہوا؟ وہ منصبوبہ جس کو ہم بھول گئے ہیں۔ اگر وہ منصوبہ آج مکمل ہوتا تو ملکی ڈیم بھرنے کے بعد بارش کا پانی دریاؤں میں تغیانی کا باعث بننے اور سیلاب کا خطرہ پیدا کرنے کے بجائے آج بھاشا ڈیم میں محفوظ ہوتا اور ہم کو اس وقت کام آتا جس وقت ہمیں اس کی سخت ضرورت ہوتی۔ اس وقت نہ صرف پہاڑی بلکہ میدانی علاقوں میں بھی بارش کا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ پانی کے اس زیاں کی سب سے افسوسناک صورتحال صحرائے تھر میں ہے۔ جہاں بہت تیز اور مستقل بارش کے باعث بہت سارا پانی پیدا ہوتا ہے مگر وہاں ڈیم نہ ہونے کے باعث وہ پانی ریت میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال بہت ہی افسوسناک ہے۔ کیوں کہ اس بات کا احساس صرف تھر کے لوگوں کو ہے کہ جب آسمان میں بادل نہیں ہوتے اور دھرتی پر پانی کا نام و نشاں نہیں ہوتا تو اس وقت بچے کیسے بلکتے ہیں اور جانور کس طرح مرجاتے ہیں۔ تھر میں بارش بہت اچھی بات ہے اور ہم کیا اس بارش کے باعث سب خوش ہیں۔ سب چرند پرند۔ سب مسرت کے عالم میں ہیں۔ مگر چند دنوں کے بعد جب پہلے پانی اور اس کے بعد دھرتی پر پھیلا ہوا سبزہ سوکھ جائے گا تب تھر کے لوگ پانی کے قطرے قطرے کو ترسیں گے ۔ اس وقت سب حسرت سے سوچیں گے کہ کاش! تھر میں ایک بڑا نہیں تو بہت سارے چھوٹے چھوٹے ڈیم ہوتے اور ان ڈیموں سے لوگوں تک پانی سپلائی کیا جاتا تاکہ وہ پیاس سے بچ پائیں۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 14برس سے سندھ پر حکمران ہے۔ مگر آج تک اس پارٹی کی حکومت نے تھر کے لیے خوشحالی کے کون سے منصوبے بنائے ہیں؟ اگر آج تھر میں ڈیم ہوتے تو تھر ایک مثالی سرزمین بن جاتی ۔ حکمران اگر نہر نہیں کھود سکتے تو کم از کم ڈیم تو بنا سکتے ہیں۔ مگر جب ممکن کام نہ کیے جائیں تب قوم کے حالات ایسے ہوجاتے ہیں جیسے آج ہمارے ہیں۔ہم جو ایسے جی رہے ہیں؛ جیسے مرزا غالب نے لکھا ہے: ’’بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشہ اہل کرم دیکھتے ہیں‘‘ کاش! ہم منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کھوئی ہوئی صلاحیت حاصل کر پائیں۔ کاش! ہم بچت کریں صرف پیسے کی نہیں بلکہ پیٹرول اور پانی کی بھی۔ کاش! ہم پورے ملک کے لیے نہیں تو کم از کم اس تھر کو تو آبی ذخائر مہیا کریں جس تھر کے پاس زراعت تو کیا اپنے بچوں کو پلانے کے لیے پانی نہیں ہے۔