ان کو خوش ہونے کا حق ہے‘ بالکل اس طرح جس طرح ساہیوال ہلوکی ‘ بکی وغیرہ کے منصوبوں پر شہباز شریف خوش ہوا کرتے تھے تاہم یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ ہم تھر کے کوئلے سے ابھی تک فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکے تھے۔ سیاستدان اپنی سی کہتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے پاس تو وہ تجزیاتی ادارے بھی نہیں ہیں۔ جو حساب کتاب لگا کر بتا سکیں کہ اصل نقشہ کیا ہے۔ میں نے کراچی میں کوئی ربع صدی تک دو قومی اخبارات کی ادارت کی ہے اس کے علاوہ بھی اس شہر میں آٹھ دس سال قومی پریس میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میں نے کئی بار تھر کے حوالے سے سیمینار کرائے ہیں ‘ہر بار یہ پوچھنے کے لئے کہ یہ منصوبہ کامیاب کیوں نہیں ہوتا۔ کبھی بتایا جاتا چین والے آتے تھے اور اس سے پہلے جرمنی والے‘ انہوں نے بتایا تھا کہ اس پر وہ کس کس انداز سے کام کر سکتے ہیں۔ بڑے سنہری خواب دکھائے جاتے‘ پھر سب ہو جاتا یہ سب مسائل تھے جن کا آج امداد علی شاہ نے ذکر کیا ہے۔ کبھی بتایا جاتا کوئلے میں سلفر زیادہ ہے۔ کبھی خبر ملتی پانی کی مقدار کوئلے میں بہت ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے ‘ یہ کوئلہ یہاں سے منتقل نہیں ہو سکتا اسے یہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھر پتا چلتا کہ اس بیابان میں کون آئے گا یہاں پہنچنے کے لئے کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ حکومت سڑکیں بنانے اور شہر بنانے کو تیار نہیں ہے۔ تھر کے نام پر ڈالر لوٹنے والی این جی اوز ہر سال یہاں پکنک منانے تو آ جاتیں مگر اس بنیادی کام پر بات نہ ہوتی۔ پھر یہ اطلاع ملتی مقامی آبادی کا کیا بنے گا۔ انہیں کہاں آباد کیا جائے گا۔ کوئلہ نکالنا آسان ہوتا تو سٹیل ملز کے لئے باہر سے کوئلہ نہ منگوایا جاتا۔ ایک زمانے میں ڈیرہ غازی خاں یا شاید کالا باغ کے کوئلے کا ذکر تھا۔ وہاں سٹیل ملز لگانے کی بات ہو رہی تھی۔ بہرحال یہ طے ہو گیا کہ تھر کا کوئلہ تھر ہی میں استعمال ہو سکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے بجلی بنانے میں صرف کیا جائے بے شمار تکنیکی مسائل تھے‘ اس سے زیادہ سیاسی۔وفاق اور صوبوں کا بھی مسئلہ رہا ہے۔ یہ مسئلہ سندھ میں ہمیشہ رہا ہے۔ یہ نہیں کہ پہلے یہاں یا وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ تھی۔ ہم نے تو جب سے آنکھ کھولی ہے سندھ میں تو پیپلز پارٹی ہی کو دیکھا ہے جب سے پاکستان دولخت ہوا ہے سندھ زیادہ تر پیپلز پارٹی کے پاس ہی رہا ہے۔ بس یوں کہہ لیجے اس منصوبے کو نہ بننا تھا نہ بنا۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور جب یہ وقت آ جاتا ے تو پھر اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں سڑکوں کا جال بچھانا‘ شہر بسانا بھی ضروری تھا۔ یہ کیسے ہو منصوبہ وفاق کا ہو‘ تو صوبے کیوں کریں اور صوبے کا ہو تو اس کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آئیں۔ کوئلہ کے معیار کا بھی معاملہ تھا اسے دوسرے جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ پیاسے کو کنویں تک پہنچنا ہو گا۔ اس کا ایک ہی استعمال ہو گا کہ اس سے بجلی بنائی جائے اور اسی جگہ بنائی جائے۔ کیسے بنائی جائے ایک منصوبے کو ہمارے ایٹمی سائنسدان ثمر مبارک مند کے حوالے کیا گیا کہ کوئلے کو گیس میں بدلو اور اس سے بجلی بنائو وہ کہتے ہیں‘ میں نے تجرباتی طور پر یہ کام کر دکھایا پھر فنڈ روک دیے گئے۔ پہلے بیورو کریسی نے اس منصوبے کو مطعون کیا‘ پھر عدالت عظمیٰ نے اس پر تین حرف بھیجے۔ یہ ثاقب نثار کا دور تھا۔ مجھے نہیں پتا ٹھیک کیا کہ غلط کیا‘ لازمی نہیں عدالتوں کے فیصلے ہی ہمیشہ حق پر ہوں۔ ایسا ہوتا تو آج ہم سٹیل ملز‘ ریکوڈک‘ رینٹل پاور کے مقدمے عالمی عدالتوں میں بھگت نہ رہے ہوتے۔ بہرحال نوید تھی کہ دوسرے علاقے میں ایک دوسری تکنیک سے جو کام ہو رہا ہے وہ کامیاب ہو گا ‘وہاں تک سڑکیں بھی بن رہی ہیں۔ ماڈل ویلج بھی تیار ہو رہا ہے تاکہ مقامی آبادی کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہرحال کام کی ابتدا ہو گئی ہے اور بنیادی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ ہمیں اس بیابان میں اب ایک نئی دنیا آباد کرنا ہے۔ ہم نے پہلے ہی اس کام میں کوئی چالیس برس ضائع کر دیے ہیں۔ اب مزید کی گنجائش نہیں ہے اس میں نہ پیپلز پارٹی کا کمال ہے نہ منصوبہ سازوں کی کوتاہی۔ بس ہماری قسمت میں یہ لکھا تھا۔ دوسروں صوبوں میں بھی ایسا ہوتا ہے مگر سندھ میں یہ صورتحال خاص حالات کی وجہ سے بار بار ابھرتی ہے‘ وفاق اور صوبوں کے درمیان تصادم۔ جیسے گزشتہ دنوں ہسپتالوں کی بات ہوئی۔ سپریم کورٹ نے لاہور کے ایک اور کراچی کے دو ہسپتالوں کے انتظامات صوبوں سے لے کر وفاق کو دینے کا فیصلہ کیا۔ اس پر ایک ہنگامہ صرف سندھ میں اٹھ کھڑا ہوا اس کا تذکرہ کسی الگ وقت کروں گا۔ اس طرح 70ء میں جب بھٹو صاحب کی حکومت آئی تو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن جو آج کل ’کے الیکٹرک‘ کہلاتی ہے یا اسی تنازع کی زد میں آئے۔ حفیظ پیرزادہ نے غالباً اسے وفاق سے لے کر صوبے کو سونپ دیا‘ پھر یہ واپس وفاق کا حصہ بن گئی۔ پھر جانے خود مختار بنائی گئی یا کیاحتیٰ کہ بک گئی۔ اور اب بھی چل نہیں پا رہی۔ کوئی اور خریدار ڈھونڈا جا رہا ہے۔ یہ نجکاری بھی الگ آزادانہ تجزیہ مانگتی ہے۔ کیا ہوا اگر یہ ہمارے دوست ملک سعودی عرب کے سرمایہ کاروں نے خریدی تھی ایک اور مثال یاد آئی۔ چند برس پہلے شوکت عزیز نے بڑے کروفر سے اعلان کیا کہ کراچی کے نزدیک ایک جزیرے میں کثیر المنزلہ عمارتوں کا ایک شہر تعمیر کیا جائے گا۔ سندھ حکومت کا بیان آ گیا۔ خبردار یہ زمین ہماری ہے تم کون ہوتے ہو یہ منصوبہ بنانے والے۔ بھٹو صاحب نے جب کراچی کو بیرون بنانے کا فیصلہ کیا تھا تو سی ویو کے کھنڈروں جیسے اپارٹمنٹ اور کاسینو اسی دور کی یادگار ہے۔ پھر جانے وہ منصوبہ کیا ہوا۔ مسترد ہوا یا اس میں کسی نے پھر دلچسپی ہی نہ لی۔ صوبے نے نہ وفاق نے۔ بہرحال تھر منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے مگر یہ صرف ابتدا ہے۔ اسے پھر اسی طرح کے جھگڑوں کی نذر نہیں ہونا چاہیے یہاں مکمل طور پر ایک نئی دنیا آباد کرنے کی گنجائش ہے 320میگاواٹ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ مگر ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھیں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔سید مراد علی شاہ نے درست کہا کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنا ایٹم بم بنانے سے بھی مشکل کام ہے اگر میں اس فقرے کو مکمل کرنا چاہوں تو یوں کہوں تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنا ایٹم بم بنانے سے بھی مشکل تھا اور ہم نے اس مشکل مرحلے کو طے کر لیا ہے۔ وہ فاصلہ جو کبھی آٹھ دس گھنٹوں میں طے ہوتا تھا جہاں کوئی آتا نہ تھا اور جس کوئلے کو ہم کسی اور جگہ لے جا نہیں سکتے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ اسے کس پراسس سے بجلی میں بدلیں بالآخر ہم نے ان تمام مراحل کو طے کیا۔ ایسے منصوبوں میں مقامی مسائل بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے آبائی گھروں سے بیدخل ہونا پڑتا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کو بھی ہونا پڑتا ہے جہاں ڈیم بنتے ہیں اور جہاں چھائونیاں بنتی ہیں۔ یہ سب وہ مسائل ہیں جو انڈسٹریلائزیشن کے ساتھ درپیش ہوتے ہیں اور جنہیں ہر عہد کے صنعت کار اور سرمایہ کار نہایت سلیقے سے طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ جب یہ منصوبہ آگے بڑھے گا‘ تب ہمیں اندازہ ہو گا کہ ملک کو اس کا کتنا فائدہ ہے اور مقامی لوگوں کو اس کے ثمرات کیسے پہنچ رہے ہیں۔ امید کرنا چاہیے کہ اس وقت حکومت نے مقامیوںکے لئے جن مراعات کا اعلان کیا ہے ان پر عمل بھی ہو گا اور ان میں اضافہ بھی۔ اس بجلی کی رائلٹی ہی صوبہ سندھ کو نہیں ملنا‘ بلکہ اس کی آمدنی کا نصف سے زیادہ حصہ بھی حکومت سندھ کے خزانے میں جائے گا۔ کیونکہ وہ اس میں حصہ دار ہیں۔ اس منافع کو اس علاقے کے باسیوں کے لئے خرچ ہونا چاہیے جہاں لوگ ہر سال غربت‘ بھوک اور بیماری سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن کے پاس پانی ہے نہ خوراک‘ نہ رسل و رسائل کے وسائل۔ اب یہ چیزیں اس علاقے میں آنا چاہئیں۔ تھر میں تبدیلی کرنا چاہیے‘ اصلی اور صحیح تبدیلی۔ خدا کرے ایسا ہو۔