نظام کو بدلنے کے لیے شر اور خیر کی قوتیں مسلسل متصادم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم تبدیلی کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ہماری عملی قوت تبدیلی کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کردے گی۔ بظاہر تو یہ سوچ ایک ولولہ تازہ کو میدان عمل میں حرکت دیتی ہے لیکن جب نتائج معکوس ہوں اور جمود برقرار رہے تو ایک نئی مایوسی، نئی بے چینی اور نئی خرابی کا نیا راستہ کھلتا ہے۔ یہ ایک عمرانی اور فطری حقیقت ہے۔ فضول مباحث اور الفاظ کا الٹ پھیر ذرا دیر کے لیے تو ایک تسلی بخش ماحول پیدا کرتا ہے لیکن روزمرہ کی خوش فہمی بالآخر اپنی ذات سے اپناہی اعتماد ختم کردیا کرتی ہے۔ہمارا سیاسی نظام ہی ہماری قومی ترجیحات کو الٹ پھیر میں رکھتا ہے۔ بدلتے ہوئے ایام میں اس سیاسی اکھاڑے کے پرانے اور مشہور پہلوان ہوتے ہیں۔ اکھاڑے کا سیاسی گرو جسے عرف عام میں کوئی بھی مروجہ نام دے لیجئے، اس کے اپنے مفادات، اس کے اپنے نعرے اور اس کے اپنے سیاسی چیلے ایک علیحدہ سے رنگ جماتے ہیں، کچھ لوگ پرانی روایتوں کا نام لے کر بزم تو سجانا چاہتے ہیں تو ادھر ادھر بکھرے ہوئے تلاش امان میں سرگرداں چیلے اس بزم نو میں آ کر ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، باقی کام پرانے آڑھتیوں ہی کا ہوتا ہے۔ اب یہی کچھ ہورہا ہے۔ بین الاقوامی تبدیلی کے ماہر دور بیٹھے خاموش ڈوریاں ہلاتے ہیں، سب کھلاڑی ہی ان کی تھیلی کی طرف دیکھتے ہیں، زر برآمد ہوتو واہ واہ ہے تھیلے سے بلی نکل آئے تو نسوانی طعنہ بازی کا بازار گرم ہے۔ ذرائع ابلاغ اسی کھیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ کسی نے کوئی بات کسی خودکار، خودپرست نعرے باز کے کان میں آہستہ سے کہہ دی تو وہ بے چارہ ناتجربہ کار اسے الہام آسمانی سمجھ کر زبان پر یوں لاتا ہے گویا اب یہ حرف جدید نسخہ کیمیا ہے اور قوم کے سب دلدر دور ہوں گے، قوم کے دلدر دور کیسے ہوں؟ رموز سلطنت کے کل پرزے تو اپنی سی بولی بولتے ہیں۔ بین الاقوامی تبدیلی کے کارندے پوری طرح سے پنجہ یہود میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس دیو استبداد کے پنجۂ لعین میں ہر طرح کی ترکیب ہے، جسے چاہے جب چاہے، قوموں کی کل مروڑ دے۔ ہمارے کتنے گھمبیر مسائل ہیں جو مستقل رہتے ہیں، کبھی ان کا دائرہ کار بین الاقوامی سطح پر پھیلائو کرتا ہے اور کبھی سکڑ کر ساری توجہ پاکستان پر مرکوز رکھتا ہے۔پاکستان کو روز اول ہی سے فرنگی کی بدنیتی اور ہندو کی فریب کاری کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اٹھنے والی تمام طوفانی آندھیوں میں یہ دو ابلیسی عنصر بہرحال موجود رہتے ہیں، اب نئے سفر میں ایسا دائو مارا ہے کہ ناطقہ سربگریباں ہو کر رہ گیا ہے۔ ریاست مدینہ کا نعرہ ہے ،کبھی نہیں سوچا کہ افراد سے اقوام مرتب ہوتی ہیں اور کبھی حاشیہ خیال میں یہ روشنی نہیں اتری کہ افراد میں اخلاص اور دیانت کی پونجی جمع ہو جائے تو پھر آسمانی احکام بھی دلوں کو شرافت اور وسعت پر آمادہ کرتے ہیں۔ ورنہ بدکردار قومیں بھی کتاب میں روزانہ تحریف کرتی تھیں۔ قانون کے تقدس کی آڑ میں لاقانونیت کو امتیاز امروز اور دور جدید کا تقاضا بیان کرتی تھیں۔ ریاست مدینہ ایک طویل کردار، جس میں افراد اور معاشرے کی اصلاح کے پس منظر میں آسمانی ہدایت کی کامل تنویر موجود تھی۔ آخری کتاب کی تعلیمات اور ان کے نفوذ و رسوخ کے لیے ایک کردار کی ضمانت فراہم کی گئی تھی۔ ریاست مدینہ سے پہلے اس ریاست کے کارکنوں نے، ذمہ داروں نے، بہی خواہوں نے اپنے دل کے نظام کو بدلنے کے لیے جہاد اصغر اور جہاد اکبر کی تشریحات اپنے عملی وجود سے ثابت کی تھیں۔ خدائے وحدہ لا شریک کی سلطنت کا دوام ارض قلب پر اور وجود بدن پر اس کا نفاذ ہوا تھا۔ معاشرے کو اخوت کی ڈوری میں ایسی حسین ترتیب کے ساتھ پرویا تھا کہ مرتے دم پانی کا گھونٹ دوسرے انسان کے لیے ایثار کردیا تھا۔ اخلاص سے یہ منزل آتی ہے۔ اخلاص تربیت کے زینے کو عبور کرنے کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ تربیت کے لیے انسانی اخلاق کی تعلیمات کا درجہ بھی ہوا کرتا ہے۔ کبھی ایسا ممکن ہی نہیں ہوا کہ پانی میسر نہ ہو، چولہا گرم نہ ہوا اور دھواں بھی نہ سلگے تو اعلان کردیا جائے کہ انواع اقسام کے کھانوں کا دستر خوان بچھا ہے۔ یہی نعروں کا حال ہے۔ پھر کان میں کوئی آ کر نئی بات سمجھا دیتا ہے کہ اب اعلان کرو کہ نئی بات سنو، لوگ ذرا دیر کے لیے کلیجہ تھام کر امید نو کے ساتھ نیا جہاں دیکھنا چاہتے ہیں مگر ان تلوں میں تیل کہاں! دانشور پکار اٹھتا ہے ؎ ترا یہ دعویٰ غلط ہے ساقی، نظام محفل بدل گیا ہے وہی پرانی سی بوتلیں ہیں، وہی پرانی شراب بھی ریاست مدینہ آسمانی نظام سیاست، شعور حکومت اور فلاح و فوزکا سرنامہ ہے، یہ بازیٔ طفلاں نہیں ہے کہ ہربوالہوس اٹھ کر حسن پرستی کا مدعی ہو۔ ریاست مدینہ کے حکمران اول خود وہ شاہِ کونین ﷺ ہیں کہ مساکین کی پرورش اور غربا کی معیشت کے اہتمام میں اپنی بیٹی کے لیے جائز مراعات کا بھی اہتمام نہیں فرماتے۔ ریاست مدینہ کے شاہ ﷺ کی بیٹی خود چکی چلا کر آٹا تیار کرتی تھی، خواجہ کونین ﷺ کا داماد مزدوری کیا کرتا تھا۔ ریاست مدینہ کا حاکم رعایا کی فلاح کے بندوبست میں اتنی سعی بلیغ فرماتا تھا کہ ایک فرد خوشحال ہو جائے، رات کو کوئی خاندان بھوکا نہ سوئے، اپنے گھر تو کئی کئی روز چولہا ٹھنڈا رہتا تھا مگر رعایا کی خوشحالی ان کے تمتماتے چہروں سے عیاں ہوا کرتی تھی۔ ایک روز خاتون اول ام المومنین کے ہاتھ میں زیور دیکھا تو سخت ناگواری کا اظہار تھا کہ ہمارے گھر میں یہ اثاثہ دنیا کیوں نظر آتا ہے۔ ریاست مدینہ میں حاکم کسی بھی خوف کے ماحول میں ازخود اور بنفس شریف گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تشریف فرما ہو کر حفاظت سلطنت کے لیے متحرک نظر آتا تھا۔ حاکم ریاست کی زبان میں شیرینی تھی۔ دشمن قائل ہو جاتے اور خون کے پیاسے تلوار رکھ کر دست غلامی بڑھاتے کہ ہمیں بھی کرم و خوش بختی کی چادر میں پناہ عطا فرمائیے۔ ریاست مدینہ میں حاکم اپنی سماعت کو دلیل و شہادت سے مضبوط کرتے تھے۔ ریاست مدینہ میں انتقام نہیں معافی تھی۔ ریاست مدینہ میں خدائی رحمت کی وسعت تھی۔ غریبوں کی جیبوں کو ٹٹول ٹٹول کر نیم مردنی معاشرت کا فروغ نہیں تھا۔ ریاست مدینہ بہت مقدس عنوان ہے۔ کسی نے نجانے اس لفظ کی حرمت کی دیواریں گرانے کے لیے ایسا کیوں کیا؟ ریاست مدینہ غریب پروری کا دائمی عنوان ہے۔ مہنگائی بڑھانے اور لقمہ شب چھیننے کا منشور تو کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔