ہو سکتا ہے‘ آپ سوچیں‘ یہ سیدھی بات نہیں کرتا‘ ہمیشہ الٹی ہی سوچتاہے۔ کیا کروں‘ سچ تو بولنا ہی ہے۔ اسے مری مجبوری سمجھیں۔ یہ جو چیف آف نیب کا سکینڈل بنا ہے‘ اس پر بہت سی باتیں ہو رہی ہیں ممکن ہے۔ مرے پاس بھی بہت سی معلومات ہوں کہانی میں چسکا خاصا ہے۔ بہت کچھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ میں تو اس ادارے کے بانی ارکان میں سے ہوں جس نے یہ خبر نشر کی ہے۔ میں اس ٹی وی چینل کا ایگزیکٹوڈائریکٹر رہ چکا ہوں۔ایک قومی اخبار کی ایڈیٹر شپ چھوڑ کر اس کے آغاز ہی میں اس کی اولیں ٹیم کا حصہ بنا تھا اور جس طاہر اے خاں کا ذکر آیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کی مشاورتی ٹیم کا حصہ تھے۔ ہو نہ ہو یہ سب کچھ انہوں نے وزیر اعظم کے کہنے پر کیا ہے‘ ان کی ذہنی اپچ اور تخلیقی صلاحیتوں سے واقف ہوں۔ میں نے ان کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا ہے۔ اچھا اگر یہ سب نہ بھی ہو تو بھی اللہ نے تجزیے کی جو تھوڑی بہت صلاحیت دے رکھی ہے اس کی مدد سے ایک کہانی بنا سکتا ہوں۔ بتا سکتا ہوں کہ سازش کس نے کی ہے۔ اس کے پیچھے اپوزیشن یا حکومت یا خود نشانہ بننے والے چیئرمین ہی اپنی ذہانت کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ بھی تفصیل بیان ہو سکتی ہے کہ اگر چیئرمین نیب استعفیٰ دیںتو کس کس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خود چیئرمین صاحب کی سیرت و کردار اور پس منظر پر بہت کچھ کہہ سکتا ہوں۔ لوگ یہ سب سننے کے منتظر ہیں۔ میں نے کہا‘ اس میں چسکا بہت ہے۔ مگر میں اس وقت ایک روکھی سوکھی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سے لوگ ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ اس سکینڈل کی آڑ میں کرپشن پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ موقف سرکاری حلقوں کا ہے۔ خاص کر شیخ رشید نے اس پہلو پر اپنی خو اور عادت کے مطابق زور دیا ہے ان کی باڈی لینگویج بھی بہت کچھ کہتی جا رہی تھی۔ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ایک خاتون کے ساتھ چیئرمین کی فون پر بات چیت کو بہانہ بنا کر اصل بات سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ کرپشن کے الزامات سے بچنا چاہتے ہیں۔ سن لیں انہیں این آر او نہیں ملے گا۔ گویا چیئرمین کا یہ مبینہ غیر اخلاقی اور غیر شائستہ رویہ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ اصل بات تو کرپشن ہے یعنی مالی کرپشن۔ میں ایک طویل عرصے سے یہ لکھتا آیا ہوں کہ اس نظام زر میں صرف مالی بے ضابطگی کو ہم نے اس طرح جرم قرار دے ڈالاہے کہ اس کے پیچھے سارے گناہ چھپا دیے گئے ہیں۔ ایک بار صاف لفظوں میں عرض کیا تھا کہ چوری کی سزا ہمارے ہاں اگر ہاتھ کاٹنا ہے تو بعض ایسے جرائم ہیں جن کی سزا سنگسار کرنا بتائی جاتی ہے یعنی اس کم بخت کو زمین میں گاڑ کر پتھر مار مار کر جہنم واصل کر دو۔ مرا مطلب یہ تھا کہ ہماری ترجیحات میں بعض جرائم جن کی سزا مالی کرپشن سے کہیں زیادہ تھی۔ ہم نے مگر اسے ذاتی اور نجی معاملہ قرار دے کر اس پر بات تک کرنا ممنوع قرار دے دیا تھا۔ گویا یہ اصول بنا ڈالا تھا کہ جو شخص دوسروں کا مال لوٹتا ہے‘ وہ تو اس لئے مجرم ہے کہ وہ دوسروں کا نقصان کرتا ہے۔ مگر جو شخص بدکرداری کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس لئے قابل گرفت نہیں ہے کہ اس سے ریاست یا سماج کے معاملات پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یہی سب سے بڑی غلطی ہے اور اس نظام زر کی عطا کردہ کج فکری ہے جو سب خرابیوں کی جڑ ہے۔ ویسے تو جھوٹے پر بھی خدا کی لعنت‘ اگرچہ اس نے کسی دوسرے کا حق نہیں ماراہوتا۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ اس ذاتی خرابی سے کتنی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اس طرح ایک بدکردار شخص (میں یہاں وہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا جو بدکرداری کو صحیح طرح ظاہر کرے) پورے معاشرے کو کس طرح تباہ کر سکتا ہے۔ اس کی شخصیت اور ذہنیت اس قابل نہیں کہ قوم کے معاملات اس کے ہاتھ میں دیے جائیں۔ ایک بار یحییٰ خاں کے زمانے میں جب ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ ہم نے اس بات کا تذکرہ کیا تھا۔ ہمارے اس حکمراں پر کوئی بددیانتی کا الزام نہیں لگا۔ مگر بدکرداری کے تذکرہ سے وہ عہدعبارت تھا۔ ہم کہتے تھے یہ ملک اس لئے ٹوٹا کہ ہم نے عنان اقتدار ایک بدکردار شخص کے ہاتھ میں دے ڈالی تھی۔ میں اس حوالے سے نہ پرانے حکمرانوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں نہ فلسفیانہ بحث۔ میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ اس واقعے سے ایک بار پھر ہمارے اندر کی ہر ذہنیت باہر آتی ہے کہ بدکرداری کوئی جرم نہیں ہے اور اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تہذیب انسان اور ذہن انسانی کو نہ سمجھنے کا شاخسانہ ہے۔ ویسے ہم نے ساری ترتیب ہی بدل ڈالی۔ پرانے لوگ بتایا کرتے تھے کہ پہلے عقیدہ یا ایمان ہے‘ پھر عبادات ہیں‘ اس کے بعد معاملات اور یہ اخلاقیات‘ معاملات ہی کا حصہ ہے۔ ہم نے یہ ترتیب ہی بدل ڈالی۔ اس کے سماجی رویوں پر کیا اثر پڑے۔ جدید نفسیات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ آپ نے انسان کو سر کے بل الٹا کھڑا کردیا ہے اور چاہتے ہیں کہ وہ دنیا کودرست تناظر میں دیکھے۔ اچھے اور برے کی تمیز ختم کر دی ہے۔ چوری مرا پیشہ ہے نماز فرض جیسے فلمی ڈائیلاگ بھی ہماری کج فکری کا ہم پر بھانڈا نہ پھوڑ سکے ہم نے اسے ہنس کر ٹال دیا۔ اوپر میں نے سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر کیا۔ اس کے بعد تو ہمارے ہاں ایک طرح سے ریاست کی سطح سے یہ مہم شروع ہوئی کہ بدکرداری کو چٹکیوں میں اڑا دیا جائے اور اسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ سچ کہوں تو یہ ہماری اشرافیہ کا کلچر بن گیا اور اس نے جدید عہد کے اطوار و معیارات کے نام پررواج پانا شروع کردیا ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ہم اپنے ادارے کے ایک سربراہ کے ناشائستہ رویے کو نظر انداز کرنے پر زور دیتے ہیں اور کہہ رہے ہیں اس سے احتساب کے عمل پر کیا اثر پڑے گا۔ میں دانستہ اس نفسیاتی روحانی یا دینی بحث میں نہیں پڑنا چاہ رہا کہ کس طرح اس بدکرداری کی روایت کا پلا ہوا انسان معاشرے کا ناسور ہوتا ہے۔وہ انصاف تو دے ہی نہیں سکتا۔ چلیے کسی گہری بحث میں پڑے بغیر ذرا اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے کہ کس کس طرح اس طرح کے گروہ عورتوں کو استعمال کر کے بڑے بڑے کام نکلوا لیتے ہیں۔ صرف ایسے کام نہیں جن سے انصاف کا خون ہوتا ہو‘ احتساب کے عمل پر داغ لگ سکتا ہو بلکہ ایسی مثالیں بھی بے شمار ہیں کہ جنگوں میں دشمنوں کے راز چرانے کے لئے کس طرح اس ہتھکنڈے کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جاسوس عورتیں راز اگلوائے اورکام نکلوانے کا سب سے بڑا وسیلہ رہی ہیں۔ قوموں کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے یہ مرض ہمارے ہاں قومی سطح پر عام ہو چکا ہے کہ اب ہم بڑے بڑے لوگوں کے سکینڈل یہ کہہ کر گول کر جاتے ہیں کہ یہ ان کی نجی زندگی ہے۔ کسی عوامی آدمی کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس نجی زندگی کے نتیجے میں جو شخصیت جنم لیتی ہے۔ وہ اجتماعی معاملات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ جانے کتنے فیصلوں کا پس منظر یہی جنسی بداخلاقی ہوتا ہے۔ جس نے پیسہ لوٹا اس کا جرم تو صرف اس فعل تک محدود رہے گا۔ مگر جس نے بدکرداری کی کمائی کھائی اس نے گویا سکون کو تباہ کر دیا۔ اس بات کو صرف اتنا نہ سمجھو۔ میں بار بار کہتا آیا ہوں کہ پورے کے پورے انسان کو قبول کرو۔ آدھے اور ادھورے انسان ہمیں کچھ نہیں دے سکتے۔ اور ہاں جو چیز پہلے ہے‘ اسے پہلے سمجھو۔ اگر آپ کی نیت خراب ہے تو آپ جس کام کا آغاز کریں گے اس کی پہلی اینٹ ہی غلط ہو گی تو اعمال کی یہ عمارت آسمان تک ٹیڑھی ہی جائے گی۔ دین میں نیت یا ایمان یا عقیدہ کی اہمیت جاننے کے بجائے چلیے میں آپ کے جدید ذہن کو ایک سہولت دیتا ہوں‘ ذرا مغرب کے فلسفے ہی کو دیکھ لیجیے۔ مجھے اس موقع پر بھی ژاں یاں سارتر یاد آ رہے ہیں۔ بہرحال ہر غلط فیصلہ آپ کو غلط راستے پر لے جاتاہے۔ یہ فیصلہ آپ کی نیت‘ ارادے کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہم نے ترجیح مراتب درست طے نہیں کیں تو بات بگڑتی ہی جائے گی۔ لعنت ہو ایسی فکر پر جو بدکرداری کو معاف کر کے یہ سمجھے کہ یہ تو لوگوں کی زندگیوں کے ذاتی معاملات ہیں۔ ایسا ہے نہیں۔ ایسا ہوتا نہیں۔ بدکرداری ‘بدکرداری ہے اور یہ کسی مالی بداعمالی سے بڑا جرم ہے اور یہ کسی شخص کا ذاتی معاملہ نہیں۔ خاص کر کسی ایسے شخص کا جس کے ہاتھ میں قوم کے بارے میں اہم فیصلے کرنا ہوں۔ اس لئے میں اس بحث کو واقعاتی انداز میں دیکھنے کے بجائے‘ اس رویے پر بات کر رہا ہوں جو ایسے موقع پر جنم لیتا ہو۔ ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو کہ یہ بات گھڑی ہوئی ہے‘ مگر اس پر جو ہم نے ردعمل دیا ہے۔ وہ انتہائی لغو اور بے معنی ہے۔