وزیرِاعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نجی شعبے کو ترقیاتی عمل میں بھرپور طریقے سے شامل کرنے اور ان کو موافق فضاء کی فراہمی کے لئے مکمل طور پر پر عزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرون اور اندرون ملک سرمایہ کاروں کو آسانیاں فراہم کرنے کے لئے سرمایہ کاری بورڈ کو متحرک کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی ضروریات کے پیش نظر ترقیاتی عمل میں نجی شعبے کی بھرپور شراکت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ فیڈرل اور صوبائی ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی پیش رفت رپورٹ ، مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کی تقسیم اور ان پر اب تک کی پیش رفت کی تمام تر تفصیلات پیش کی جائیں۔نجی شعبے کی مدد سے قومی معیشت کی ترقی کے لئے ایک ہمہ جہتی ٹیم بنتی ہے، پاکستان کو توانائی،مائیکرو الیکٹرونکس،فوڈ پراسیسنگ،لائیو سٹاک اینڈ ڈیری، زرعی ٹیکنالوجی ،آبپاشی ،ہاوسنگ اور ٹاون پلاننگ میں نجی شعبے کا تعاون درکار ہے،سالڈ ویسٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا ، کم فیس والے ہسپتالوں کی تعمیر اور برآمدی صلاحیت والی صنعتوں میں مقامی سرمایہ اور استعداد نا ہونے کے برابر ہے ۔ ہمارے دو ہمسایہ ممالک نے قومی اور بیرونی سرمایہ کاروںکے تعاون سے معیشت کو کھڑا کر لیا ہے ،بھارت کی غربت ، بے تحاشا آبادی،نا خواندگی اور ذہنی پسماندگی کو امریکہ، چین، فرانس اور عرب ممالک کی سرمایہ کاری نے بدل کر رکھ دیا، کورونا کی وبا کے دوران بھارت میں اگرچہ بڑا المیہ رونما ہو چکا ہے لیکن اس کی فارما سیوٹیکل صنعت نے جو شاندار کردار ادا کیا وہ نا قابل فراموش ہے۔ گزشتہ 40 برسوں کے دوران چین کی طرف سیکی گئی معاشی پیش رفت خاص طور پر متاثر کن ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی انسانی تاریخ میں اس طرح کی ایک بہت بڑی آبادی والے ملک نے اتنی جلدی یہ مقام نہیں حاصل کیا۔ ماوزے تنگ نے جدید چین کی بنیاد رکھی، جب کہ 1975ء میں ڈین ز یا پنگ کی قیادت میں حقیقی تیز رفتار ترقی ہوئی۔ ڈینگ نے محسوس کیا کہ چین کا ایک اہم شعبہ زراعت کا تھا۔ اس شعبے میں اصلاحات تیزی سے غربت کے خاتمے میں مدد کرسکتی ہیں اور ملک کو مزید ترقی کے لئے فنڈز بھی فراہم کرسکتی ہیں جو دوسرے شعبوں کو فروغ دینے کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ ڈینگ نے ’’نچلے درجے سے اوپر‘‘ (Bottom up) کی اصلاحات کو زراعت کے لئے متعارف کرایا اور ’’اجتماعی بستیوں‘‘ کی زمین کو نجی پلاٹوں میں تقسیم کیا۔ اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں 25 فی صد اضافہ ہوا اور دیگر اقتصادی شعبوں میں مزید نجکاری کے لئے راستہ ہموار کیا۔ صنعت میں متعارف کرائے گئی اصلاحات نے دوہری قیمت کے نظام کا تعارف شامل کیا ،جس کے تحت ریاستی اداروں نے اپنی مصنوعات کو محدود قیمتوں پر فروخت کیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے خصوصی اقتصادی زون بنائے گئے تھے ۔ بہت سے ممالک کو چین میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتیں قائم کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے جن میں اعلیٰ درجے والے آٹو موبائل اور کمپیوٹرز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ صنعتیں چین کے لئے تیز رفتار ترقی کا ذریعہ بن گئیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اعلیٰ پیداواری صلاحیت، کم مزدوری و لاگت اور اچھے بنیادی ڈھانچے سے فائدہ اٹھایا۔ چین کیاسپالیسی کے نتیجے میں سرکاری منصوبہ بندی کے اداروں اور نجی شعبے کے سرمایہ کاروں دونوں نے چین کی جی ڈی پی میں قابل ذکر ترقی کی، جس سے 1978 سے 2015 کے دوران 9 فی صد سالانہ اور 11.5 فی صدسالانہ کے درمیان اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر ڈینگ کی اصلاحات کے آغاز کے بعد چین کی جی ڈی پی میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ چین نے اب ترقی یافتہ ملک کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ پاکستان میں بد عنوانی اور اختیارات پر جوابدہی سے انکاری حکمران کلاس کے قبضے کی وجہ سے ایسی پالیسیاں متعارف نہ کروائی جا سکیں جو مقامی و غیر ملکی سر مایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوتیں۔ماضی کی حکومتوں نے توانائی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا۔نندی پور پاور پلانٹ اسی بد انتظامی کی یادگار بن کر رہ گیا،رینٹل منصوبے سے فائدہ کیا ہوتا ترک کمپنی سے تنازع نے پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا،اس سے پہلے توانائی کے جو منصوبے رو بہ عمل ہوئے ان میں ایسے معاہدے کیئے گئے جو کسی طور مناسب نہ تھے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کی ایک اور غلط مثال ریکوڈک منصوبہ ہے،پاکستان اس سلسلے میں بھی عالمی عدالتوں سے ہر جانے کی سزا پا چکا۔اس سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ۔وہ پاکستان کو ایک ایسا ملک سمجھتے ہیں جہاں کاروباری افراد کو لوٹ لیا جاتا ہے ۔وزیر اعظم نے حالیہ دنوں مختلف ممالک میں متعین پاکستانی سفرا سے خطاب میں جب سرمایہ کاری لانے کی بابت کہا تو انہیں یہ حوالے یاد دلائے گئے۔ بلاشبہ دنیا سکڑ رہی ہے، کاروباری برادری ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر منافع کی پر خطر وادیوں مین اتر جاتی ہے ۔افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سکریپ کی بڑی کھیپ پاکستان آنے کو ہے۔چین سے نئے تجارتی دروازے کھل رہے ہیں، ہنگری سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہا ہے ،ایسے میں مقامی سرمایہ کاروں کے گروپ بنا کر انہیں عالمی سرمایہ کاری میں شریک کیا جا سکتا ہے،حکومت کا کردار محض موافق ماحول برقرار رکھنے اور کچھ ریگولیٹری اتھارٹی پر مبنی ہونا چاہئے ۔