وزیراعظم عمران خان نے اراکین اسمبلی سے ملاقات کے دوران ہدایت کی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔ ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام سست روی سے ہونے یا غیر معینہ مدت تک رکے رہنے سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ وزیراعظم اس نوع کے مسائل کے نتائج سے آگاہ ہیں اس لیے ان کی کوشش رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کو طے شدہ مدت کے اندر مکمل کیا جائے۔ دسمبر2020 میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ملک بھر میں تعمیراتی منصوبوں سے متعلق اجلاس ہوا جس میں تمام صوبوں نے 6 ماہ میں ہونے والی کنسٹرکشن رپورٹ پیش کی۔سندھ میں تعمیراتی منصوبے تاخیر کا شکار ہونے پر وزیراعظم چیف سیکرٹری سندھ پر برہم ہوئے اور کہا کہ پنجاب نے رپورٹ دی کہ 6 ماہ میں 664 پراجیکٹس کی منظوری دی جب کہ سندھ نے گزشتہ چھ ماہ میں صرف19پراجیکٹس کی منظوری دی۔ سندھ میں صوبائی حکومت کی جانب سے250 پراجیکٹس کو منظوری کا انتظار ہے ڈھائی سو پراجیکٹس کی منظوری نہ ملنے کی وجہ بلڈرز کا رشوت نہ دینا ہے، بلڈرز نے متعدد بار وزیراعظم کو شکایت کی کہ ہزار گز کمرشل بلڈنگ پر سوا کروڑ تک رشوت دینی پڑتی ہے، رشوت نہ دیں تو ایک سال پراجیکٹ تاخیر پر پانچ کروڑ مارک اپ دینا پڑتا ہے۔بلدڑز ایسوسی ایشن اور ممبران متعدد بار وزیراعظم کو رشوت دینے سے متعلق آگاہ کرچکے۔ وزیراعظم نے چیف سیکرٹری سندھ سے کہا اب دو پاکستان نہیں چل سکتے، سندھ میں تاجربرادری کو کیوں تنگ کیا جارہا ہے؟وزیراعظم نے کہا جن پراجیکٹس کی منظوری دینی باقی ہے فوری دی جائے اور ہدایت کی کہ سندھ میں کام کرنے والی تاجر برادری کو تنگ نہ کیا جائے۔ خیبر پختونخوا حکومت میں توانائی کے منصوبوں میں اربوں روپے نقصان کا انکشاف ہوا،بی آر ٹی منصوبہ حکومت کے لئے اب تک درد سر بنا ہوا ہے، منصوبوں میں تاخیر سے مجموعی طور پر 22ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے نقصانات سے متعلق جو رپورٹ جاری کی اس کے مطابق 2007میں شروع منصوبے 2017میں بھی مکمل نہ ہوسکے، ناقص پلاننگ، بجلی کی پیداوار اور فروخت نہ ہونے سے نقصان ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی پیداوار اور فروخت نہ ہونے سے 7ارب 73کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا، انتظامی کنٹرول نہ ہونے اور تاخیر سے 10 ارب سے زائد کے اضافی اخراجات ہوئے۔منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ تخمینہ لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ منصوبے ظاہر ہے اہم ضروریات کو مد نظر رکھ کر شروع کئے جاتے ہیں مگر ان کی تکمیل بروقت نہ ہونے سے وہ مفید مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے۔ مثال کے طور پر لاہور کا دوموریہ پل شہر کے انتہائی گنجاں آباد اور مصروف علاقوں کو ملاتا ہے مگر چار سال سے زیر تعمیر یہ سادہ سا منصوبہ عوام کے لیے مستقل اذیت کا سبب بن چکا ہے اور اس تاخیر کے نتیجے میں اس کی لاگت میں بھی 52کروڑ روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔اسی طرح وزیرآباد اور ملتان کے امراضِ دل کے اداروں کی تعمیر میں لمبی تاخیر کے سبب لاگت میں بھاری اضافہ ہواہے۔ یہ بدانتظامی ہمارا معمول بن چکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عوامی بہبود کے منصوبے مقررہ میعاد میں مکمل کرنے کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہی نہیں کہ صوبوں اور وفاق کے فراہم کئے گئے فنڈز سے شروع منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ انتظامی اور مالیاتی سست روی نے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے جاری ترقیاتی منصوبوں کوبھی تاخیر کا شکار کر رکھا ہے۔ وزارت اقتصادی امور کے مطابق مختلف شعبوں میں جاری 178 ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کی وجہ سے ڈونرز نے 27 ارب ڈالر میں سے صرف 13 ارب ڈالر جاری کئے۔ 2014ء میں داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے 1987ء ایکڑ اراضی میں سے اب تک صرف 740 ایکڑ حاصل کی گئی ہے جبکہ دیر کی وجہ سے لاگت میں 17ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسا ہی ورلڈ بینک کی شراکت سے بلوچستان میں آبی وسائل کی فراہمی اور ترقی کا منصوبہ ہے۔ بینک نے ناقص انتظامی امور کی وجہ سے 20 کروڑ ڈالرز میں سے نو کروڑ ڈالر کی گرانٹ جزوی طور پر منسوخ کردی ہے۔ اس منصوبے میں گھوسٹ ملازمین کا انکشاف ہوا ہے۔کراچی میں گرین بس منصوبہ‘ سرکلر ریلوے منصوبہ اور صفائی کے منصوبے مسلسل تاخیر کا شکار ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے مسلسل نگرانی کے باوجود ان منصوبوں پر کام تسلی بخش رفتار سے نہیں ہورہا۔ ملک کے دورے بڑے شہر لاہور کی بات کریں تو چودھری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران جوبلی ٹائون میں دانتوں کا بڑا ہسپتال تعمیر ہوا۔ یہ ڈھانچہ پچھلے بارہ سال سے مکمل ہسپتال بننے کا منتظر ہے۔ فردوس مارکیٹ انڈر پاس کی تعمیر مکمل ہونے کے لیے حکومت کو کئی بار مدت میں توسیع کرنا پڑی۔ منصوبوں میں تاخیر کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ غریب ملک کے مختص کردہ وسائل زیادہ وقت خرچ ہونے سے کم پڑ جاتے ہیں۔ لوگوں کی آمدورفت کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ بدعنوانی کے نئے نئے طریقے برتے جانے لگتے ہیں۔ وزیراعظم ڈھائی سالہ اقتدار میں اس حوالے سے کماحقہ توجہ نہیں دے پائے جس سے خرابیوں میں اضافہ ہوا۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ منصوبوں میں تاخیر کی بنیادی وجوہات کے تدارک کا انتظام کر کے ملک میں اچھی گورننس بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔