امریکیوں کو خدشہ تھا کہ ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بیس بنا کرکے سینٹرل ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دے ، کیونکہ جلد ہی سویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والا تھا اور وسط ایشیا کے ممالک آزاد ہونے والے تھے۔ جنیوا ایکارڈ پر دستخط کرنے کیلئے پاکستان پر دباوٗ بنانے کیلئے امریکہ نے 120دن تک ایڈ پر پابندی بھی لگائی تھی۔ پاکستان چونکہ ابھی بھی اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ 10اپریل 1988کو راول پنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کیلئے مخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں دھماکہ ہوا۔ اسلام آباد اور راول پنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہو رہی تھی، جس میں کم از کم 100افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کے چار دن بعد یعنی 14اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکہ، سویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے ایکارڈ پر دستخط کرکے سویت فوجوں کے انخلا ء پر رضامندی ظاہر کی۔ صدر ضیاء الحق نے گو کہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے انٹرویوز میں وہ اپنی ناراضگی چھپا نہیں سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی ایگریمنٹ کرسکتی ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہے۔ دستاویزات کے مطابق ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ںاور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے قیام کے بعد ہی جنیوا معاہدہ پر دستخط ہونے چاہیں۔ گو کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدن حکمت یار نے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے منع کر دیا تھا، مگر پاکستانی افسران کا کہنا ہے کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے نرمی دکھائی تھی۔ جنیوا ایگریمنٹ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا۔ ایک ماہ بعد یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جنیجو حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خود ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں پراسرار موت ہوگئی۔ اس کی ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کیلئے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں سول وار کا آغاز ہوگیا۔ 1992میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا مگر اسکے بعد وہ اگست 1994تک آپس میں برسرپیکار رہے، تاآنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گرپوں کو شکست دیکر کابل پر قبضہ کیا۔ اس سے قبل 1993میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ طے پایا گیا تھا کہ اگلے 18ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہینگے اور گلبدن حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت کا کا م کاج سنبھا ل لیں گے۔ یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا گیا تھااور اسکو مزید تقدس فراہم کرنے کیلئے اسکی ایک کاپی کو خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لٹکائی گئی۔ نواز شریف نے کہا کہ’’ چونکہ یہ معاہدہ اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے ہوا ہے اسی لئے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جراٗت نہیں ہوگی۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا‘‘ مگر اس معاہدہ کی سیاہی خشک ہی نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں پھر شدت آگئی۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق 1994کے پہلے چھ ماہ میں ہی کابل میں 25ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست 1994کو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم گئی۔ 2001میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2020 امریکی خصوصی نمائیندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کئے، تقریباً 19سال قبل اپریل 1998کو امریکہ کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان راہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے۔ رائے گوٹمین کی کتاب How We Missed the Story: Osama bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistanمیں درج ہے کہ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کیلئے بھی تیار ہو گئے تھے۔ پاکستانی سفیر عزیر احمد کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان کو منوا لیا کہ ملک میں خواتین کیلئے تعلیمی ادارے کھل جائینگے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی۔اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں ۔ مگر 19 سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افراد کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار کے قریب امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور 825بلین ڈالر جھونکنے کے بعد وحہ میں بھی تقریباً ان ہی باتوں کا اعادہ کیا گیا۔ افغانستان میں تاریخ کو دہرانے کی شروعات ہی 1839کی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اسکی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تحت پر بٹھانا تھا۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی شروعات ہوتے ہی افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔ مورخ ولیم ڈالریمپل کے مطابق برطانوی فوجوںنے کمک بلا کر اس کا بھر پور بدلہ چکایا۔ کابل اور اسکے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ اپنی کتاب Return of a King:The Battle of Afghanistanمیں وہ رقم طراز ہیں کہ اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟ شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا تھا۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کیلئے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی۔ 20ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا۔ برطانوی فوج کشی، سویت قبضہ اور پھر 9/11کے بعد امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلاء کسی قدیمی یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ بڑا سوال ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلاء سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گایا یہ بدنصیب ملک مزید گردآب میں گر جائیگا۔ آخر مغربی طاقتیںبار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر اسی نکتہ پر لوٹ آتی ہیں۔ افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کرپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ان کی اس حکمت عملی نے ایشیاء کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے۔ اس دل کو صحت مند بنانے کیلئے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلا لحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے بااختیار بنایا جائے۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اسمیں شامل کرایا جائے۔ مزید پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا ء کے عروج کا نقیب ہوگا۔