دنیا بھر میں ریل گاڑی کا سفر محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ٹرینوں کے حادثے آئے دن کا معمول ہیں۔کبھی دو ریل گاڑیوں کی ٹکر ہوجاتی ہے‘ کبھی چلتی ٹرین کے ڈبے پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں‘ کبھی ر یلوے پھاٹک پر موٹر گاڑی اور ٹرین میں ٹکر ہوجاتی ہے۔ ان حادثات میں درجنوں لوگ لُقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ایک واقعہ کے بعد چند دن میڈیا پر شور بپا رہتا ہے‘ پھر اگلے ایکسیڈنٹ تک سب کچھ بھُلا دیا جاتا ہے۔ چند ہفتے پہلے صادق آباد کے قریب ایک مسافر ٹرین اسٹیشن پر پہلے سے کھڑی مال گاڑی سے جاٹکرائی جس سے چوبیس افراد جاں بحق اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ ایک مہینہ کے اندر ہونے والا ریل گاڑی کا دوسرا بڑا حادثہ تھا۔ اس سے بیس روز پہلے حیدرآباد کے قریب ایک مسافر ٹرین اور ٹریک پر کھڑی کارگو ٹرین کا تصادم ہوگیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بے شمار حادثات ان کے سوا ہیں۔کبھی بوگیاں پٹری سے اُتر جاتی ہیں‘ کبھی انجن فیل ہوجاتا ہے‘ کبھی بوگیوں کو جوڑنے والا جوڑ کُھل جاتا ہے۔ سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ریل گاڑیوں کے حادثوں میں 384 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کیلئے ہر حادثہ کی سرکاری تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے۔ عموماً نچلے عملہ کو ذمہ دار قرار دیکر معاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے۔ خاص طور سے اگر حادثہ میں ڈرائیور مرجائے تو سارا قصور اس پر ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ مرنے والا تو اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ اسطرح کسی زندہ شخص کو سزا بھی نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈرائیور سو گیا تھا۔ یہ ممکن نہیں۔ ٹرین کے نئے انجنوں میں ایسے حساس آلات لگے ہوتے ہیں کہ ڈرائیور کا جسم چند سیکنڈ بھی جُنبش نہ کرے تو وہ زوردار سیٹی بجانا شروع کردیتے ہیں۔ پرانے انجنوں میں ڈیڈ مین پیڈل ہوتا ہے جس پر ڈرائیور کا پائوں رہتا ہے۔ اگر اسے اُونگھ آئے تو پیر کا وزن پیڈل پر کم ہوجاتا ہے اور انجن رُکنے لگتا ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ ٹرین ڈرائیوروں کی کمی ہے۔ اسلئے کم تجربہ کار اسسٹنٹ ڈرائیوروں کو مقررہ مدت سے پہلے ڈرائیور بنادیا گیا ہے۔ انگریزوں نے ریل گاڑیوں کو چلانے کا ایک فول پروف نظام بنایا تھا جو اب تک رائج ہے لیکن ریلوے کے عملہ کی نالائقی‘ کام چوری اور کرپشن نے اسے غیرموثر بنادیا۔ ایک ٹرین نے کس ٹریک (لائن) پر جانا ہے اسکا فیصلہ ڈرائیور نہیں بلکہ راستے میں آنے والے اسٹیشن ماسٹر کرتے ہیں۔ صادق آباد کے قریب جو تصادم ہوا اُس میں ٹرین کو اسٹیشن پر گرین سگنل دیا گیا کہ گزر جائو لیکن ٹریک مین لائن کی بجائے لُوپ لائن کا دے دیا گیا جہاں پہلے سے ایک مال گاڑی کھڑی تھی۔ قواعد کے مطابق جس ٹریک پر گاڑی کھڑی ہو اُسکا کانٹا (پوائنٹ) تو بند ہوجاتا ہے۔ ایک ریل گاڑی کو گرین سگنل صرف اسی وقت دیا جاتا ہے جب لائن بالکل صاف ہو۔ متعلقہ عملہ نے ٹرین کو مین لائن پر ڈالنے کا کانٹا بدلا ہی نہیں۔ ظاہر ہے اس حادثہ میں کانٹا بدلنے والے‘ سگنل دینے والے اور ان سب کے انچارج اسٹیشن ماسٹر کی مجرمانہ غفلت تھی۔ قواعد کے مطابق ایک ٹرین جب کسی چھوٹے یا بڑے اسٹیشن سے گزرتی ہے تو وہاں کا اسٹیشن ماسٹر پہلے اگلے اسٹیشن ماسٹر سے تصدیق کرتا ہے کہ اُسکے اسٹیشن کا ٹریک صاف ہے تب وہ اُسے آگے جانے دیتا ہے ورنہ اپنے ہی اسٹیشن پر گاڑی کو اُس وقت تک روکے رکھتا ہے جب تک اگلے اسٹیشن سے اجازت نہ مل جائے۔ حادثوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آلات کی دیکھ بھال میں غفلت سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر سگنلز کی بیٹریاں خراب رہتی ہیں۔ اُن کی مرمت بروقت نہیں کی جاتی۔ فنڈز خرد برد کرکے گھٹیا پُرزے استعمال کیے جاتے ہیں جس سے آلات ٹھیک کام نہیں کرتے۔ ریلوے عملہ کی کرپشن کتنے ہی خاندان اُجاڑنے کا سبب بن چکی ہے۔ حالیہ حادثات زیادہ تر کوٹری (سکھر) اور حیدرآباد کے درمیان ہوئے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مخصوص حصّہ کے ٹریک‘ کانٹوں اور سگنلزکا خصوصی معائنہ کرائے۔ جو خرابی ہے اسے دُور کرے اور بار بار کوتاہی کے مرتکب عملہ کو تبدیل کرے۔ چند روز پہلے بہائوالدین زکریا ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ مال گاڑیوں کے ساتھ ایسے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ کئی وجوہات ہیں۔ کہیں ریل کی پٹڑیوں کی پیکنگ کمزور ہے‘ ان کے نٹ بولٹ پُورے نہیں ہوتے‘ کہیں انہیں صحیح طرح کسا نہیں جاتا۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن اس سے بڑے بڑے ہولناک حادثے ہوسکتے ہیں۔ کہیں کانٹے کے الائنمنٹ ٹھیک نہیں ہوتی‘ کہیں مال گاڑی پر مقررہ حد سے زیادہ وزن لاد دیا جاتا ہے جسکا زور پڑنے پر وہ پٹڑی سے پھسل جاتی ہے۔ قواعد کے مطابق ریل گاڑیوں کے پہییوں کی مقررہ مدت کے بعد رگڑائی کی جانی چاہیے‘ انجن ایک سفر مکمل کرلے تو اُسکا مکمل معائنہ کیا جانا ضروری ہے۔ ان ضوابط پر پوری طرح عمل نہیں کیا جارہا۔ ریلوے کا ہر شعبہ دوسرے شعبہ پر الزام لگاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کتنا ہی بڑا حادثہ ہوجائے‘ کتنی انسانی جانیں تلف ہوجائیں‘ ریلوے کے اعلی افسران کو کبھی سزا نہیں ملتی۔ جو افسران حادثات کا اصل باعث ہیں انہی کو حادثات کی انکوائری پر مامور کردیا جاتا ہے۔ تحقیقات میں افسران ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ کسی بڑے حادثہ کے بعد زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ نگران افسر کو ایک عہدہ سے ہٹا کر دوسرے عہدہ پر لگادیا جاتا ہے یا کچھ دنوں کیلیے افسر بکار خاص بنادیا جاتا ہے۔ ہر سال ریلوے کو قومی خزانہ سے تیس چالیس ارب روپے کی گرانٹ دی جاتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ریلوے کا پرانے انفراسٹرکچر کو جدید بنانے کیلیے حکومت سرمایہ کاری کررہی ہے۔ کئی جگہ ٹریک بدلا گیا۔ نئی کوچز‘ نئے انجن خریدے گئے ۔ مواصلاتی نظام بہتر بنایا گیا۔ جدید سگنل سسٹم لگائے گئے۔ اسٹیشن ماسٹروں‘ ڈرائیوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا لیکن حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ٹرینوں کی تاخیر اور حادثات معمول بن چکے‘ سروس کا معیار انتہائی پست ہے۔ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ مینجمنٹ بہتر بنانے سے یہ مسائل حل ہونگے لیکن یہ کام کرنے کیلیے کیا آسمان سے فرشتے نازل ہونگے؟